طالبان نے کہا ہے کہ وہ اس ہفتے ممکنہ طورپر ترکی میں ہونے والی امن کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس سے قبل کہا تھا کہ امریکا چاہتا ہے کہ ترکی کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس، جس میں طالبان اور افغان حکومت دونوں کے اعلیٰ عہدے دار شرکت کریں گے، میں افغانستان کے متحارب فریق کسی امن معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہو جائیں۔
طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک آڈیو پیغام ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اسلامی امارت (طالبان) منصوبے کے مطابق اس ہفتے ترکی میں ہونے والی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ امن کانفرنس میں شرکت اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی امن تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور جب بھی غور کا عمل مکمل ہو گا، ہم اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔ ترجمان نے بعد میں آڈیو پیغام کو ایک واٹس ایپ گروپ میں بھی شیئر کیا ہے۔
امریکی اور ترک حکام کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ جمعہ سولہ اپریل سے کانفرنس کا آغاز ہو جائے۔ یہ کانفرنس دس روز چلے گی۔
اس کانفرنس کے لیے کوئی نئی تاریخ طے نہیں کی گئی لیکن تقریباً ایک برس سے زیادہ عرصہ قبل ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے لیے یکم مئی کی آخری تاریخ کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ امریکا کے اس طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کے اپنے وعدے پر قائم ہیں تاہم امریکا افواج کی واپسی میں تین تا چھ ماہ کی توسیع چاہتا ہے۔
طالبان نے اب تک انخلاء کی مدت میں کسی طرح کی توسیع کو مسترد کر دیا ہے اور مقررہ وقت تک افواج واپس نہیں بلانے پر’نتائج‘ کی دھمکی دی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے گزشتہ ماہ طالبان اور افغان حکومت دونوں کو آٹھ صفحات پر مشتمل ایک امن تجویز کا مسودہ دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس پر غور وخوض کریں اور ترکی میں کسی معاہدے پر متفق ہونے کے لیے تیار ہوکر آئیں۔
طالبان کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا ہے کہ ترکی امن کانفرنس میں شرکت اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی امن تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور جب بھی غور کا عمل مکمل ہو گا، ہم اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کر دیں گے۔
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.