یورپی یونین نے 20 فروری پیر کے روز اسلامی جمہوریہ ایران میں عوامی مظاہروں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن میں کردار اد کرنے والے تہران کے کئی حکام اور اداروں پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔
ان نئی پابندیوں میں 32 افراد اور دو اہم اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں تہذیب و ثقافت کے وزیر، امور دین کی رہنمائی کے وزیر، وزیر تعلیم نیز مظاہروں پر کریک ڈاؤن کی حمایت کرنے والے کئی دیگر سیاستدان اور اہلکار شامل ہیں۔
تازہ ترین پابندیوں کے نتیجے میں ایران کے مجموعی طور پر 196 افراد اور 33 ادارے متاثر ہوں گے۔
تاہم یورپی یونین ایران کے خصوصی پاسداران انقلاب فورسز کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کے اقدام کے خلاف فیصلہ کیا۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے سربراہی اجلاس کے اختتام کے بعد برسلز میں کہا کہ ”یورپی یونین میں ہمارے پاس ابھی تک پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔”
یورپی یونین کے اعلانات کے فوری بعد برطانیہ نے ایران سے متعلق اپنی پابندیوں کی فہرست میں آٹھ نئے عہدیداروں کا اضافہ کیا۔
برطانیہ نے اپنی نئی پابندیوں میں ملک کے بعض ججوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جن کے بارے میں لندن کا کہنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
Source: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.