بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے نے خطہ لداخ کے دو روزہ دورے کے بعد دو اکتوبر ہفتے کے روز بھارتی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ چین نے لداخ کے متعدد متنازعہ سرحدی علاقوں میں اپنی فوج کی تعداد اور ان کی تعیناتی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے جو بھارت کے لیے ایک تشویش کی بات ہے۔
چند روز قبل ہی چین نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت ‘فارورڈ پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے اور سرحد پر کشیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے چین کے علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ بھارت نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوطرفہ کشیدگی کی وجہ باہمی سرحد پر فوجوں کی تعیناتی ہے۔
بھارتی فوجی سربراہ جنرل مکند منوج نروانے نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں کہا، ’’چینی فوجیوں کی تعیناتی میں کافی اضافہ ہوا ہے جو ایک تشویش کی بات ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران سرحدی علاقے میں صورت حال نارمل بھی رہی ہے۔
جنرل نروانے کا مزید کہنا تھا، ’’چینی (فوجیوں) کو ہماری مشرقی کمان تک پورے مشرقی لداخ اور شمالی محاذ پر کافی بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا ہے۔ یقینی طور پر، آگے کے علاقوں میں ان کی تعیناتی میں کافی اضافہ ہوا ہے جو ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا نہیں لگتا کہ اس علاقے میں کسی، ’’جارحیت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’ہم ان کی جانب سے ہونے والی تمام پیشرفت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ موسم کی بنیاد پر ہمیں جو بھی اِن پُٹ ملتا ہے، اس کے مطابق ہم اس سے مقابلے کا انفراسٹرکچر بھی تیار کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی پوری طرح سے تیار ہیں۔‘‘
اس سے قبل بھارتی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کے سربراہ سرحدی علاقوں میں فوج کی تعیناتی اور آپریشن کی تیاریوں کے جائزے کے لیے لداخ کے دورے پر ہیں۔ اس بیان کے مطابق انہوں نے سرحد پر تعینات بھارتی فورسز سے ملاقات کی اور فوج کی تعیناتی کا جائزہ لیا۔
اس دوران بھارت نے لداخ میں چین سے ملنے والے سرحدی علاقوں میں پہلی بار خود کار ’کے نائن‘ ہتھیار کو اتارا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ خود کار مشین گن پچاس کلومیٹر تک مار کرانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس خطے میں اس کے تجربے بھی شروع کیے جا چکے ہیں۔
خود بھارتی فوجی سربراہ کا کہنا تھا، ’’یہ بندوقیں بلند ترین پہاڑی علاقوں میں بھی کام کر سکتی ہیں، ان کا فیلڈ ٹرائل انتہائی کامیاب رہا ہے۔ ہم نے اب یہاں اس کی ایک پوری رجمنٹ کو شامل کیا ہے، یہ واقعی بہت مدد گار ثابت ہوں گی۔‘‘
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.