ایران خاص طور پر معاشی لحاظ سے روس کے لیے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یوکرین جنگ سے پہلے سامان سے لدھے، جو کنٹینر یورپ بھیجے جاتے تھے، اب براستہ ایران بھارت تک پہنچائے گئے ہیں۔
ایران کی وزارت تیل کے مطابق ملکی نیشنل ایرانی آئل کمپنی (این آئی او سی) اور روسی گیس پروڈیوسر کمپنی گیس پروم نے تقریباً 40 بلین ڈالر مالیت کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ دونوں ملکوں کی کمپنیوں کے مابین یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں طے پایا ہے، جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن تہران میں موجود ہیں۔ وہاں وہ اپنے ترک اور ایرانی ہم منصبوں سے مل رہے ہیں۔
ایران کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق روسی کمپنی ایران کی نارتھ پارس گیس فیلڈز اور چھ دیگر آئل فیلڈز کی ترقی میں ایرانی نیشنل کمپنی کو مدد فراہم کرے گی۔ یہ روسی کمپنی ایرانی مائع گیس ( ایل این جی) کے دیگر منصوبے مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی پائپ لائنوں کی تعمیر میں بھی مدد فراہم کرے گی، جن کے ذریعے تہران حکومت ملکی گیس برآمد کرنا چاہتی ہے۔
ایران کے پاس روس کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے گیس کے ذخائر ہیں لیکن یہ ملک مغربی پابندیوں کی وجہ سے ابھی تک ان سے مکمل فائدہ حاصل نہیں کر پایا۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران جدید ٹیکنالوجی خریدنے سے قاصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں گیس برآمد کرنے کی صلاحیت بہت سست رفتاری سے ترقی کر رہی ہے۔
ایرانی اور روسی میڈیا نے اسے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔ شمالی جنوبی روٹ کا یہ ایک ایسا منصوبہ ہے، جو برسوں پہلے ماسکو میں شروع ہوا تھا اور پھر اسے بھلا دیا گیا تھا۔ اب اس منصوبے میں نئی روح پھونکی گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق روسی صدر مغربی دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس متبادل راستے موجود ہیں۔