مصنف,الموڈینا ڈی کابو
موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟ تاریکی، درد کا خاتمہ، روشنی اور پرسکون احساس ایسی چند وضاحتیں ہیں جو انسانی تخیل نے موت کے بعد کے منظر نامے کے طور پر پیش کی ہیں۔
تاہم ایک حالیہ غیر معمولی سائنسی تحقیق میں دعوی کیا گیا ہے کہ انسان کا دل دھڑکنا بند ہوتا ہے تو شعور کی فوری طور پر موت نہیں ہوتی۔
امریکہ کی نیو یارک یونیورسٹی کے گروسمین سکول آف میڈیسن میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق دل کا دورہ پڑنے کے بعد ہر پانچ لوگوں میں سے ایک شخص جو زندہ رہتا ہے، وہ موت کے ایسے تجربے سے گزرتا ہے جب بظاہر اس شخص کا دل نہیں دھڑک رہا ہوتا اور وہ بے ہوش ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے ڈائریکٹر سیم پرینا کے مطابق ’تاریخ میں موت کو ایک لکیر کے طور پر دیکھا گیا کہ ایک بار اسے پار کر لیا گیا تو پھر واپسی نہیں ہو سکتی۔‘
ان کے مطابق گذشتہ 60 سال سے اس تصور پر سوال اٹھایا جاتا رہا۔ ان کے مطابق اس کی وجہ ’کارڈیو پلمونری ریسسٹیشن‘ (سی پی آر) عمل کی ایجاد تھی۔
دل کا دورہ پڑنے کے بعد متاثرہ شخص کو ہنگامی طبی مدد فراہم کرنے کے لیے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، جس سے یہ ممکن ہوا کہ ایسے لوگ جو موت کے مرحلے میں داخل ہو چکے تھے، ان کو واپس لایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے لاکھوں افراد ہیں جو تقریباً موت کے منہ میں داخل ہو چکے تھے اور جنھوں نے اپنے تجربات بتائے ہیں تاہم ان تجربات کو ادویات کے اثرات یا پھر ذہنی ہذیان قرار دیا جاتا رہا۔ اس حالیہ تحقیق کے مطابق یہ موازنہ درست نہیں۔
اس تحقیق کے دوران 567 افراد کا جائزہ لیا گیا جن کو 2017 سے 2022 تک برطانیہ اور امریکہ میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد سی پی آر دیا گیا اور ان میں سے صرف 10 فیصد زندہ بچے۔
سیم پرینا کا کہنا ہے کہ ’یہ سمجھنا ہو گا کہ دل کا دورہ صرف دل سے جڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک طبی اصطلاح ہے۔‘
تحقیق میں 85 ایسے افراد بھی تھے جن کے دماغ کی مانیٹرنگ بھی کی گئی جس میں ’سیریبرل آکسی میٹری‘ کے عمل کا استعمال کیا گیا۔ اس عمل میں دماغ میں آکسیجن کے اتار چڑھاؤ کو مانیٹر کیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔
سیم پرینا کے مطابق ’دل کا دورہ ایک ایمرجنسی ہوتی ہے جس میں سب کچھ اچانک ہوتا ہے۔ ٹیم کو پانچ منٹ کے اندر پہنچنا ہوتا ہے تاکہ سامان نصب کیا جا سکے۔ اس کام میں ڈیٹا اکھٹا کرنا بہت مشکل تھا۔‘
جانوروں میں ہونے والے تجربات میں دیکھا گیا کہ موت کے وقت ان کے دماغ میں برقی حرکت میں اضافہ ہوا۔
فروری میں ایک اور تحقیق میں ایک خاتون کے دماغ کو عین موت کے وقت جانچا گیا جس میں دیکھا گیا کہ دماغ میں گاما ایکٹوٹی میں اضافہ ہوا۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ایک انسان پرانی یادیں کھنگالنے کی کوشش کر رہا ہو۔
اس پس منظر میں سیم پرینا کی ٹیم دو سوالوں کے جواب تلاش کرنا چاہتی تھی۔ پہلا تو یہ کہ جب دل دھڑکنا بند ہو جاتا ہے تو انسان کس تجربے سے گزرتا ہے اور دوسرا ان دعووں کی جانچ جن میں لوگوں نے دعوی کیا کہ انھوں نے شعوری طور پر موت کا تجربہ کیا لیکن وہ مرے نہیں۔
تاہم ان کے مطابق ’مر کر زندہ ہونے‘ والی اصطلاح کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے کیونکہ ایسے تجربات کا در حقیقت موت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ دو مختلف تجربات ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ کچھ لوگ خوابوں کی بات کرنے کے لیے اس اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں۔ کچھ منشیات کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ ’لیکن ہمارے لیے یہ واقعی موت سے جڑے تجربات کی بات تھی۔ اس لیے کہ ان کیسز میں دل دھڑکنا بند ہو چکا تھا۔‘
اکثر لوگ جب سی پی آر کی وجہ سے بچ جاتے ہیں تو کئی دن یا ہفتوں کوما یعنی بے ہوشی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ سیم پرینا کی ٹیم نے ایسے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔
’ہمیں معلوم ہوا کہ ایک گروہ وہ تھا جن کو ایسے تجربات اس وقت ہوئے جب وہ کوما سے نکل رہے تھے۔ یعنی ان کے تجربات کا موت سے تعلق نہیں تھا۔‘
اس تحقیق کے دوران انھوں نے اس امکان کو بھی خارج کر دیا کہ یہ تجربہ خواب دیکھنے جیسا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سب لوگ مختلف خواب دیکھتے ہیں لیکن موت کے تجربے سے گزرنے والے لوگ، جو ایک دوسرے کو نہیں جانتے، پانچ باتیں بتاتے ہیں۔
’ان میں زندگی کا تجزیہ کرنا، جسم سے جدائی کا احساس، پھر جسم میں ایک احساس کا لوٹنا، ایسا تاثر جیسے کسی منزل کی جانب سفر کیا جا رہا ہو اور پھر واپس گھر لوٹنے جیسا احساس شامل ہیں۔‘
’ہم یہ طے کرنے میں کامیاب ہوئے کہ موت کا تجربہ خواب یا ہذیان نہیں ہوتا۔‘
تحقیق کے دوسرے مرحلے میں دماغ کے مانیٹر کے ذریعے اس بات کو جانچا گیا کہ ایسے وقت میں شعوری احساس کی سطح کیا ہوتی ہے۔
ان کو معلوم ہوا کہ سی پی آر کے ایک گھنٹے بعد تک دماغ میں تیز حرکت کے آثار موجود تھے یعنی دماغ کی ایلفا، بیٹا، ڈیلٹا اور گاما لہریں۔
سیم پرینا نے بتایا کہ ’یہ لہریں اس وقت نظر آتی ہیں جب انسان شعوری طور پر کچھ سوچ رہا ہو، کسی چیز کا تجزیہ کر رہا ہو، جب آپ یادداشتیں کنگھال رہے ہوں۔ تو ہم نے دماغ کے مارکرز کے ذریعے موت کے شعوری تجربے کا ثبوت دکھایا۔‘
حقیقت میں اس تجربے سے گزرنے والے ہر انسان کو یاد نہیں رہتا کہ اس دوران اس کے ساتھ کیا ہوا یا ان پر کیا بیتی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھوں نے یہ تجربہ نہیں کیا۔
مدہوشی طاری کرنے والی ادویات، کوما اور شریانوں کے پھولنے سے دماغ کی سوجن کی وجہ سے انسان ایسے تجربات بھول بھی سکتا ہے۔
سیم پرینا کا کہنا ہے کہ سو فیصد لوگ ہر چیز نہیں بتا پاتے۔ اس کا تعلق ہر کسی کی دماغی کیفیت اور ان ادویات سے ہیں جو ان کو دی جاتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ تحقیق میں شامل 39 فیصد لوگوں کو چند مبہم سی باتیں یاد رہیں لیکن وہ تفصیل بیان نہیں کر پائے جبکہ 20 فیصد کو ایک ماورائی قسم کی کیفیت کا احساس تھا۔ سات فیصد کو یاد تھا کہ انھوں نے کچھ سنا جبکہ تین فیصد کو کچھ دیکھنے کا تجربہ ہوا۔
جن لوگوں کو یہ کیفیت یاد تھی، ان میں اس کا دورانیہ واضح نہیں تھا۔ سیم پرینا کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ کیفیت چند سیکنڈز پر محیط ہو۔
اس تحقیق میں لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی زندگی کا تجزیہ کیا اور کچھ واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے۔
ایک شخص نے بتایا کہ ’میری پوری زندگی میری آنکھوں کے سامنے سے گزری۔ پہلے یہ بیت تیزی سے ہوا۔ پھر یہ لمحے سست رفتار ہو گئے۔ میں نے سب کچھ دیکھا، وہ لوگ جنھوں نے میری مدد کی، وہ لوگ بھی جن کو میں نے تکلیف پہنچائی۔‘
ایک اور شخص نے بتایا کہ ’میری زندگی ایک مختصر فلم کی طرح میرے ذہن پر چل رہی تھی۔ لیکن یہ بہت واضح اور اصل لگ رہا تھا۔‘
کچھ لوگوں نے ایسے تجربات بیان کیے کہ ان کو ایسا احساس ہوا کہ وہ اپنے جسم سے جدا ہو رہے ہیں جبکہ کچھ نے جسم میں لوٹنے کی کیفیت کو محسوس کیا۔
ایک شخص نے کہا کہ ’میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابھی میرا وقت نہیں ہوا اور مجھے اپنے جسم میں لوٹنا ہے۔‘
ایک اور شخص نے بتایا کہ ’مجھے ایسا لگا کہ مجھے اپنے جسم میں واپس دھکیلا جا رہا ہے۔‘
ایک شخص نے بیان کیا کہ ’مجھے ایسا لگا کہ میرے ساتھ کوئی ہے، یہ ایک پرسکون احساس تھا لیکن اس موجودگی کے ساتھ طاقت کا احساس بھی جڑا ہوا تھا۔‘
کچھ لوگوں نے بیان کیا کہ ان کو کسی منزل کی جانب روانگی اور پھر گھر واپس لوٹنے کی کیفیت کا احساس ہوا۔
ایک شخص نے بتایا کہ ’ایسا نہیں تھا کہ میں کسی سرنگ میں تھا بلکہ جس رفتار سے میں سفر کر رہا تھا اس سے ایک سرنگ میرے ارد گرد بن گئی تھی۔‘
’میں بہت تیز رفتار سے اس سرنگ سے گزرا۔ یہ بہت اچھا احساس تھا اور میں واپس نہیں آنا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں گھر پہنچ چکا ہوں۔‘
سیم پرینا کے لیے یہ مختلف انداز بیان دلچسپ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم زندہ ہوتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک فیصد حصہ ہی یاد رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موت کے قریب جانے والے ان لوگوں کو سب کچھ یاد آیا حالانکہ ان کا دماغ بند ہو رہا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ اس طرح نہیں ہوتا جیسے میڈیا یا فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک گہرائی میں کیا جانے والا زندگی کا تجزیہ ہوتا ہے جس میں اپنے اعمال اور افکار پر غور کیا جاتا ہے۔‘
’وہ اپنی زندگی کو جانچتے ہیں، اپنے اعمال کو اخلاقی کسوٹی پر رکھ کر ناپتے ہیں، جو بہت غیر معمولی بات ہے۔‘ اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہوتا ہے جب وہ طبعی موت کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اور اسی لیے اسے ہذیان نہیں کہا جا سکتا۔
اس تحقیق میں شامل افراد کا کہنا تھا کہ جب ان کو وہ وقت یاد آیا جب انھوں نے کسی کو تکلیف دی تو ان کو بہت برا محسوس ہوا۔ لیکن جن لوگوں کو انھوں نے خوشی پہنچائی، اس سے ان کو بھی خوشی کا احساس ہوا۔
پرینا کا کہنا ہے کہ عام طور پر ہم اپنی زندگی میں اتنا گہرا تجزیہ نہیں کرتے کیوں کہ ایسا کرنا بہت بھاری بھرکم احساس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ واقعی ایک موت جیسا تجربہ ہے اور ہم اس کو سائنسی اصولوں کے تحت دیکھ کر اس کے بارے میں مذید جان رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جب کوئی اچانک مرتا ہے تو وہ تمام چیزیں جو اہمیت رکھتی ہیں، جیسا کہ بل دینا، قرضہ، کھانا، نوکری، یہ سب غائب ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان کی اہمیت نہیں ہوتی۔ جو بات دماغ میں رہ جاتی ہے وہ یہ کہ بطور انسان ہمارا رویہ کیسا تھا۔ ہماری اخلاقیات، اور وہ سب جو ہم نے زندگی میں کیا ہوتا ہے، یاد رہتا ہے اور یہ واقعی حیران کن چیز ہے۔‘