اباد بلوچ
اب کے ہمیں خود کو سنبھال کے یہ آنسوؤں سے بھرا لقمہ گلے سے اتارنا ہوگا۔ تا کہ یہ گلو گیر غم ہماری آواز کے آڑے نہ آئے اور حق کے لئے بولتے بولتے ہمارے دکھ بھرے اشک ہمیں کمزور نہ کر پائیں۔ تا کہ ہم اپنے دلوں میں کمزوری اور مایوسی کی جگہ ان جذبات کو پال سکیں جن سے ہمارے رہشون تربیت ہوئے ہوتے ہیں۔اور جن سے ہمارے جہد کار ہماری بقا کی جنگ لڑتے آرہے ہیں۔ اب کے ہمیں بھی آواز اٹھانا ہوگا۔ آواز وہ جو اتحاد اور منظم جدوجہد کی ہو۔ جدوجہد جو مستقل ہماری رگوں میں سرائیت کر کر ہم میں بانک کریمہ کی سی جتن اور تحریک کی سی ضبط پیدا کرسکے۔
اب کے ہمیں خود کو یہ باور نہیں کرانا کہ ہماری یہ قربانیاں دشمن کی طرف سے ہم پر معروضی طور پر لاگو کردہ ہیں۔ جو ہر دن ہمیں ایک نیا جسد دے کر پرانے کو بھولنے کی تلقین کرتا ہے۔ تا کہ ہمارے کندھے لاشیں اٹھانے کے عادی ہو کر اپنے حقیقی بوجھ کو کندھا دینے سے سبکدوش ہوں۔ اور ہم ڈر کے سائے تلے وقتی طور پر واویلا کر کے جلد بھول جائیں۔ بلکہ ہمیں دشمن کو باور کرانا ہے کہ اب ہم اس کے بریڈ اینڈ سرکسز کے حربے کو ناکام کر کر اپنی تحریک کو آئے روز فیس بک پر ایک تصویری مہم تک محدود نہیں رکھیں گے۔ بلکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لئے قربانی کا راستہ شعوری طور پر منتخب کرتے ہیں۔ اور اس پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہتے ہیں۔ اب کی درد انگیز وار نے ہماری روحوں تک کو جھنجوڑدیا ہے۔ کیونکہ اب کے ایک ماں پر حملہ ہوا ہے۔ اور ہم وقتی طور پر مضطرب ہوکر دشمن کا سا رویہ اختیار کر گئے تھے۔ لیکن جلد ہی ایک اور ماں نے ہمیں یہ کہہ کر تھام لیا،کہ میں بیٹی کی موت کا سن کر بھی نہیں روئی، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میری بیٹی بہت بہادر اور مضبوط اعصاب کی مالک تھی۔ اگر میں روئی تو یہ میری بیٹی کو پسند نہیں آئے گا۔
اور ہمیں یاد آگیا ہے کہ ہماری مائیں جب بچپن میں ہمارے جسموں پر فخر سے مورت ملتی ہوئی لوریاں کہتی ہیں تو وہ مورت تاحیات ہمارے لئے تہذیب و اخلاقیات کی دوائی ہوتی ہے۔ کہ جس سے ہم بھول کر بھی کبھی روگردانی کریں تو ماں ہمیں اس کا واسطہ دیتی ہے اور ہم سنبھل جاتے ہیں۔اور ان لوریوں میں بہادری اور حوصلے کا درس ہوتا ہے۔جو ہمارے روایات کی شناخت ہیں۔ اور جن سے ہم اپنی تاریخ کو سنوارتے آرہے ہیں۔ اور اضطراب اور بوکھلاہٹ وہ اصطلاحات ہیں جنہیں ہم دشمن کے لئے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اور اس بار بھی ہمیں ان کی عام ذہنیت سے یہی رویہ دیکھنے کو ملا۔ اور ہم جذباتی کمزوری کی وجہ سے ششدر ہو رہ گئے کہ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں دوسرے انسانوں کی موت پر بھی ہنسی آسکتی ہے اور ہم وقتی طور پر سراسیمہ ہوچکے اور اس غم و غصہ کا اظہار کیا جو کسی حد تک غیر منطقی اور ہماری روایات کے برخلاف اور دشمن کا خاصہ ہے۔
اور ہم اس دشمن سے امید کر ہی کیا سکتے ہیں۔ جو بقول بانک ماہ رنگ کے پیچھے سے ہی وار کرنا جانتی ہے۔ اور ہم کیوں بھول گئے ہیں کہ ہمارے پاسدار دادا نے بھی دشمن سے یہی مہذب روئے کا آس لگا کر اپنی ایک قول کے عوض ہماری باج تک بخش دی تھی۔ لیکن ہم اس امید کو کیوں نہ قائم کر کے اسے دوام بخشیں۔ اور ان روایات پر متحد ہوں جن کی پاداش میں ہم پر ماتم برپا کیا جاتا ہے اور زخم جس زمین زادے کا بھی ہو اس کا درد مشترکہ طور پر بلوچ قوم کو سہنا پڑتا ہے۔ اب کے ہم اپنے سنہری اقدار کی روشنیوں سے تاریخ کے سامنے شرمندہ دشمن کو بھی تہذیب کا درس دیتے ہوئے اسے انسانی آفاقی افکار سے آشنا کریں ۔اور مظلوم کی آڑ میں ظالم بننے کی بجائے دشمن کے دکھ پر بھی آنسو بہائیں۔ کیونکہ ہمارے جہد کار ذاتیت کی بنیاد پر آج ہی کے لئے جنگ نہیں لڑ رہے۔ اور کل جب ہماری دنیا سنہری تاریخ کے عروج پر اور تہذیب کے مثالی دہانے پر کھڑے ہو کر مہو رقص ہوگی۔تب بھی ہمارے دل بانک کریمہ کی سی جہد کے اطمینان سے سرشار ہونگے۔اور ہم ان میں گنے جائیں گے جو اپنے آج کو انسانی آزادی اور برابری کے لئے قربان کر رہے ہیں۔
آج پوری بلوچ سماج بانک کریمہ کی قربانیوں کا قرض دار ہے اور اس قرض کو تب چکھا سکیں گے جب ہم بانک کی زندگی سے بھی وہ کچھ سیکھنے کی کوشش کریں گے جو وہ ہمیں اپنی پوری زندگی سکھاتی رہی۔ اور اس بار ہم اپنی فطرت سے اس دوغلا پن کو اکھاڑ پھینکیں گے جو بانک کریمہ کی موت پر تو آنسو گراتی ہے لیکن اپنے سمل، ماہ گنج اور بانڑی کو دوپٹے کا واسطہ دے کر منافقت کی آڑ میں ایک اور بانک کریمہ بننے سے روکتی ہے۔ بانک کے موت کی حقیقی وجوہات چونکہ اب تک منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔اس کا گمان بھی کچھ نہیں ہے۔ شاید وہ اپنی زندگی ہار گئی ہوں لیکن وہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں ہاری تھیں۔
اباد بلوچ ایک لکھاری ہیں اور پنجگور سے تعلق رکھتے ہیں.
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.