ثناء زھری
سرمایہ دار طبقہ اور اس کے حامی درمیانے طبقے کے دانشور سرمایہ دارانہ نظام کو ازلی اور ابدی پیش کرنے کی ہمیشہ کوشش لگے ہوئے ہیں بلکل اسی طرح مختلف طبقات اور دنیا میں بسنے والے اقوام کو بھی ازلی اور ابدی سمجھتے ہوئے تاریخی ارتقاء کے عمل سے کاٹ کر قوم کی مجرد اور رومانوی تصور پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے قدامت کا تصور جنم لیتی ہے اور ہر ایک اپنی قوم کو قدیم اور دسرے اقوام اعلیٰ اور بر تر تصور کرتے ہیں مگر حقیقت میں قوموں کی تشکیل کا تصور دو اڑھائی سو سال پر محیط ہے۔عام طور قوم قبیلے اور کمیونٹی کے تصور کو ایک دوسرے سے گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر قوم مختلف قبائل کے ایک دوسرے ساتھ مدغم ہو کر ایک سیاسی و سماجی اکائی بن جاتی جہاں قبائل کی آزادانہ تشخص ختم ہو جاتی اگر پرانے قبائل کے تشخص کے باقیات ختم نہ ہوں تو اس سے یہ مراد لیا جائے گا قوم کی تشکیل کا تصور مکمل نہیں ہوا ہے۔
زبان کو قوم کو تصور میں کلیدی اہمیت حاصل ہے لیکن لازمی نہیں ہے کہ ایک ہی زبان بولنے سب کا تعلق ایک ہی قوم مثلاً انگریز اور امریکیوں کا زبان انگریزی ہے مگر کوئی عقل اندھا ہو گا جو ان کو ایک قوم تصور کریگا۔ عربی زبان بولنے والے سب افراد کا تعلق مختلف قوموں ہے ہوسکتا ۔بلکل اسی طرح ایک قوم مختلف زبانیں بولنے والے ایک ہی قوم کی تشخص رکھ سکتے ہیں۔ مشترک جغرافیہ قوم کے لئے ایک لازمی شرط ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک خطہ علاقہ یا کسی شہر جو کہ جغرافیہ کے یونٹ ہے میں ایک قوم آباد ہو۔ قوم کی لئے مشترکہ تاریخ بھی ایک لازمی عنصر ہے مگر معروضی حالات،جنگوں،خانہ جنگیوں قدرتی آفات موسمی تغیرات کے جبر کی وجہ سے ایک خطے میں رہنے پر مجبور ہو کر اور حالات کا معمول پر آنے سے دوبارہ منتشر ہو کی آس رکھنے والے بھی ایک تصور نہیں ہوتے ۔یعنی نسل رد نسل ایک ساتھ رہنے سے مشترکہ نفسیات ، مشترکہ ثقافت اور اس سے بڑھکر باہمی مربوط معاشی رشتہ جس کی بنیاد پر عام طور پر محنت کی تقسیم کار اور مشترکہ مفادات پر استواری ،وہ بنیادی نیوکلیئس ہے جس وجہ سے تمام اجزائے ترکیبی ایک مربوط تعلق میں بندھ جانے سے ایک قوم کی تشکیل کا عمل مکمل ہوتا ہے- بعض لوگ مذہب کو بھی قوم کی ایک عنصر تصور کرتے ہیں جوکہ بلکل غلط ہے ایک قوم میں مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے ہو سکتے مثلاً سندھ میں مسلمان ،ہندو،اور عیسائی مذہب کے ماننے والے لوگ ہیں مگر قومی حوالے سے سب سندھی ہیں ۔بلکل اسی پنجاب میں اور کے پی کے ،بلوچسان میں کی بھی یہی صورتحال ہے اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک قوم میں مختلف مذاہب کے کے افراد شامل ہیں۔یہ تمام عناصر و اجزاء مل کر ایک مکمل اور جامد کل کی تشکیل نہیں کرتے بلکہ تمام اجزا تبدیل بھی ہو تے رہتے ہیں ۔کوئی بھی قوم نہ ازلی ہے اور نہ ہی ابدی ہوسکتی بلکل اس طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک ممکنہ قوم کی تشکیل کا عمل ہر صورت میں مکمل ہو جائے۔ قدرتی جبر، جگیں ،سماجی انتشار و دیگر عوامل بعض ممکنہ قوموں کی تشکیل کے عمل میں رکاوٹ اور رخنہ ڈال سکتے ہیں جس سے ممکنہ قوم کی تشکیل کا عمل ادھورا رہ جاتا ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشی تعلقات نے نے جدید قوموں کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا جس کی بنا پر مختلف افراد کو ایک جگہ پر کام کرنے کا موقع ملا جس کی بنا پیداوار اشتراک عمل سے صنعتی انقلاب نے جاگیرداری رشتوں اور سیاسی و سماجی ڈھانچوں سے متصادم ہو کر محنت کی تقسیم کو زیادہ گہرا اور مربوط کر کے مشترکہ زبان اور ثقافتی تشخص کو عملی جامہ پہنا کر قومی کردار اور شعور تشکیل کی-
نئے پیداوری رشتوں کی استواری نے پیداوار میں ماضی کی نسبت اضافہ کے وجہ سے سرمایہ داروں کو اپنی مال کی ترسیل میں قبائلی اور جاگیرداری کے عہد میں متعین کردہ حدود کی وجہ سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک کئی مقامات پر محصول کی ادائیگی کی وجہ سے سرمایہ کی افزائش میں سب بڑھی رکاوٹ تھی۔سرمایہ دار طبقہ اور جاگیرداری کے مظالم و جبر سے تنگ و بے زار کسان،مزارع،اور نومولود پرولتاریہ (محنت کش طبقہ) کا یکجا ہونا فطری عمل تھا اگرچہ ان کے درمیان کشمش موجود تھی۔مگر مشترکہ منڈی کی ابھار اور معروضی ضرورت نے نومولود طبقات کو اپنی بقاء کے خاطر جوڑے رکھا۔جس کی بنیاد پر سرمایہ داری کے اشکال واضع ہو گئے۔اس وقت کے لبرل مفکرین نے انکو نئے موضی لوازمات سے نوازا اور پھر نئے نظریات کی طاقت نے ایک بعد دوسرے خطے میں انقلابات کو پھیلایا یوں قومی شعور نے جنم لیا جس کو آج کل قوم پرستی کہا جاتا ہے جوکہ حقیقی معنوں میں لبرلزم کے نظریات کا جزوِ لائینفک ہے۔
بائیں بازو کے کچھ دانشور لبرلزم اور قومی جمہوریت کو دو الگ الگ نظریات بنا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک ہی نظریے کے مختلف پہلو ہیں۔ ان کے خیال میں لبرلزم سرمایہ داری کا نظریہ ہے جبکہ قومی جمہوریت یا قوم پرستی الگ الگ نظریہ یا رجحان ہے جس بحیثیت مجموعی قومی مفادات کی تکمیل کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔لبرل دانشور ایک قوم میں متحارب طبقات کو ماننے سے انکاری ہیں ۔انکے مطابق ایک قوم دوسرے اقوام سے تضادات ہوتے ہیں جوکہ مجموعی خارجی عوامل اور عدم تحفظ کے ماحول میں قومی مفادات طبقاتی مفادات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ جن کی تکمیل کے لئے مشترکہ لائحہ عمل ناگزیر ہے اسی کو ہی قوم پرستی کہتے ہیں۔
مارکس نے انقلاب فرانس کے وقت ہی طبقاتی تضادات کو بھانپ لیا تھا۔یہ درست ہے کہ انقلاب فرانس کردار جاگیرداری کی جگہ سرمایہ دارانہ پیداوری رشتوں اور عمل کو مستحکم کرنا تھا جوکہ قومی جمہوری انقلاب تھا۔ بورژوازی نے جمہوری نظریات کو کسانوں،مزارع اور نومولود پرولتاریہ میں ابھار کر ان کے غم غصے میں ولولہ پیدا کرکے اپنے ہی انقلاب کی قیادت سے گریزاں ہو کر رجعتی بادشاہت کے ادارے کے ساتھ مفاہمت کے خواہشمند تھے مگر عوام کے غم غصے نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور مجبور ہو کر بورژوازی نے اقتدار پر قبضہ کر کے تاریخ کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی۔
مگر جہاں جاگیر دار اشرافیہ کو ہٹا کر تاریخ کی باگ دوڑ خود سنبھالنا چاہتی تھی وہیں پر محنت کشوں کی سیاست میں مداخلت اور شراکت داری سے خوفزدہ بھی تھا اسی تذبذب ،منافق اور خسی پن کے وجہ سے بوناپارٹزم جیسے سیاسی مظہر نے جنم لیا۔
بعد ازاں دنیا کے تمام انقلابات میں بورژوازی کی بزدلی، منافقت اور تذبذب کی وجہ سے یہی تاریخ دہرائی گئی۔ یہی بورژوازی کی ترقی پسندی کا حقیقی راز ہے۔ سرمایہ دارانہ انقلابات کے بعد پیداوار میں بے تحاشا ترقی ہوئی جس نے قومی منڈی کو پامال کرتے ہوئے دنیا پسماندہ خطوں میں اپنی مال کو خروخت کرنے خاطر ایشیا،لاطینی امریکہ،افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک قبضے کو پھیلایا ۔منڈیوں پر قبضہ نے یورپی سرمایہ دارانہ ممالک کے اپس میں تضادات ابھرے جس کا انجام بلاآخر پہلی جنگ عظیم پر منتج ہوا۔جس کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا گو جس میں قتل و غارتگری ہوئے مگر پھر بھی آگے کی طرف ایک قدم تھا۔اس واقع کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک میں سامراج کے زیر تسلط صنعتکاری ہوئے ۔مقامی سرمایہ دار بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ سامراج کے آلہ کار بن گئے جو کہ اپنے آزادنہ کردار ادا کرنے سے قاصر تھے- سامراجی اقوام کی بالادستی کو قطعی سمجھ کر طوق غلامی کو ہی اپنا مقدر سمجھنا شروع کردیا ہے۔برصغیر میں گاندھی کی شخصیت اسی تاریخی المیے کا مجسم اظہار ہے۔
اس سے قبل روس میں سامراجی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سرمایہ دار طبقے کے بجائے محنت کش طبقہ نے اپنے سر لیا ۔ابتدا میں اقتدار سرمایہ داروں کو ہی ملا مگر ان کی نا اہلی، بزدلی اور خسی پن نے اپنا تاریخی فریضہ انجام دینے کے بجائے زار شاہی کے باقیات سے سمجھوتہ کرنے لگے ۔اس صورتحال میں میں محنت کش طبقہ (پرولتاریہ) کے پاس دو ہی راستے ایک یہ کہ سب کچھ سرمایہ داروں پر چھوڑ مسولینی جسے فاشٹ کے لیے خلا چھوڑ تے یا پھر آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کر کے تاریخ کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیتے- اس ضمن بالشوک پارٹی نے پرولتاریہ کی راہنمائی کی انہوں نے جاگیردارنہ باقیات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا- بورژوازی کے اس فریضے کو بھی محنت کشوں نے بورژوازی تاریخ کے کوڑے دان ڈال کر پورا کیا۔ یوں روسی قوم پرستی کا خاتمہ ہوا اور روس میں مظلوم قومیتوں کو سکھ کا سانس ملا۔
مگر بعد ازاں اسٹالنسٹ بیوروکریسی نے اپنی اقتدار کو طول دینے کے لئے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال ڈیا- سوشلزم اور قومی جمہوری انقلاب کو گڈ مڈ کر کے دنیا کے بیشتر ممالک میں کے تحریکوں نقصان پہنچا گیا ۔اور پسماندہ خطوں میں کہیں پر بھی انیسویں صدی کے طرز قومی جمہوری ریاست قائم نہیں کی جاسکی جن ممالک یا قوموں کو آزادی ملی ان کے سرمایہ داروں نے پہلے سے بڑھ کر سامراج کی غلامی کو اپنا شیوہ سمجھ کر ان دلالی میں مصروف عمل ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ پہلے برائے راست غلامی کی جاتی تھی اور اب بلواسطہ غلامی کا طوق پہنا ہوا ہے۔
پسماندہ اقوام کی قومی جڑت، کردار،خود مختیاری اور آزادی کی خواہشات قبائلی امتیازات، مذہبی توہمات، اور لسانی تعصبات سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سرمایہ دارانہ رشتوں اور عالمی منڈی کی سرایت نے طبقاتی خلیج کو اتنا واضع کردیا ہے کہ طبقاتی کشمش اور تضاد ٹھوس سماجی حقیقت اور غالب سیاسی رجحان بن چکا ہے لبرل اور قدامت پسند اس حقیقت کو سجمھنے سے قاصر ہیں۔جبکہ مارکسزم اسے ایک غالب سیاسی رجحان کے طور منظم کرتے ہوئے سماج کو طبقاتی و قومی جبر کے چنگل سے نجات دلانا چاہتا ہے-
ثنا زہری کا تعلق بلوچستان کے شہر حب سے ہے سیاست معشیت اور سماجی مسائل ان کے دلچسپی کے امور ہیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.