صحافیوں پر حالیہ عرصے کے دوران ہونے والے حملوں اغوا کئے جانے کی کارروائیوں اور گولیوں کا نشانہ بنائے جانے کے بعد ملک کی صورت حال ایک نئے تصادم کی طرف جاتی نظر آرہی ہے۔ صحافت یا یوں کہئے صحافی اور فوج کی اسٹیبلیشمنٹ ایک دوسرے کے مقابل ہو گئے ہیں اور جسمیں عسکری اسٹیبلشمنٹ فی الحال قدرے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہے ۔ جبکہ نہتے صحافی اور ان کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یعنی پی ایف یو جے اپنی عددی طاقت کے کم ہونے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی فتح کو یقینی سمجھ رہے ہیں۔ صحافیوں اور انکی قیادت کو علم ہے کہ اب ستر اور اسی کی دہائیوں کا دور بہت پیچھے چلاگیا ہے جب سنسر شپ کے ذریعے فوجی ڈنڈے حاکم وقت تھے۔ آج کا دور میڈیا کی لا متناہی وسعت کا دور ہے جس میں توپ و تفنگ اپنا سا منہ لیکر رہ جائیں گے۔ جبکہ دوسری طرف فوج ابھی بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ یک و تنہا طاقت ہے جس کے سامنے کوئی کھڑا نہیں رہ سکتا حتیٰ کہ بیرونی طاقتوں کو بھی اسکی پوزیشن کے آگے خاموش رہنا پڑتا ہے۔
ایسی صورت حال میں یہ دیکھنا ہے کہ صحافت یا وردی کب کون اپنے مخالف پر حاوی ہوتا ہے۔یہ صورت حال جلد ختم ہونے والی نظر نہیں آرہی، لگتا ہے کچھ دھماکوں کو جنم دیگی۔ اسکی بڑی وجہ صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں فوج اور اسکی جاسوس ایجینسیوں کے براہ راست ملوث ہونے کی تمام تر ذرائع سے تصدیق ہوچکی ہے۔ مثال کے طور پر نیوز اخبار کے عمر چیمہ کو اغواہ کرکے ان کے سر اور بھنوؤں کے بال صاف کردیے گئے، انکو رسیوں سے باندھ کر اذیتیں دی گئیں۔ اس سے قبل سلیم شہزاد کو اسلام آباد سے اغواہ کرکے جہلم کے قریب ٹارچر کرکے قتل کردیا گیا۔ حامد میر کے جسم میں چھ گولیاں پیوست کی گئیں۔ اسی طرح احمد نورانی، طحہ صدیقی و دیگر کو اغواہ کرکے انہیں زد و کوب کرنا، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ میں متعدد صحافیوں کے اغواہ اور قتل کے بعد ملزمان کا علم نہ ہونا، نصف درجن کے قریب بلاگرز کا اغوا، فوجی عقوبت خانوں میں ان پر کئی ماہ تک تشدد اور پھر عالمی دباؤ پر انکی رہائی اس شرط پر ممکن ہوئی کہ وہ ملک چھوڑدیں گے، آخرکار انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔
نیز حال ہی میں مطیع اللہ جان کا اغواہ اور ٹارچر، ابصار عالم پر فائرنگ اور آخری اطلاعات تک اسد علی طور کے گھر میں گھس کر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنانا۔ ان تمام واقعات کا کھرا بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی سے جا ملتا ہے۔
اب صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یعنی پی ایف یو جے اب فوج اور اسکی جاسوسی کے اداروں کیخلاف میدان جنگ میں اتر گئے ہیں۔ اس حد تک آگئے ہیں کہ اب آئی ایس آئی کے سربراہ کی پشت پر اسکی بیوی کی طرف سے گولی مارے جانے کے راز بھی کھول دیئے۔ فوج نے بھی جسمانی نقصان پہنچائے بغیر اپنے نیٹ ورک سے حامد میر کی خلاف مہم شروع کردی۔
حیران کن امر یہ ہے کہ حامد میر نے جرنیلوں کے مزید راز کھولنے کی بھی دھمکیاں دیں جن میں ذرا بھی خوف کا عنصر نہیں تھا بلکہ غصہ سے وہ کانپنے بھی لگا تھا۔ حتیٰ خواتین جرنلسٹس منیزے جہانگیر اور اسما شیرازی نے بھی بغیر کسی خوف کے فوجی افسران کو دھمکیاں دیں۔ ان دھمکیوں کو اب آسان نہیں لیا جاسکتا کیونکہ یہ نہتے صحافی اپنی جان اور مال کی پرواہ کئے بغیر دو بدو جنگ پر تیار ہوگئے ہیں
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فوج اپنے تمام جنگی ساز و سامان اور اپنی تمام تر طاقت کے باوجود نہتے صحافیوں سے جنگ نہیں جیت سکتی، یہ درست ہے کہ شاید صحافیوں کو بھی نقصان ہو مگر فتح صحافیوں کا ہی مقدر ہوگی۔
یہ دعویٰ میں اس لئے کررہا ہوں آج سے 42 سال پہلے نہتے صحافیوں کے ہاتھوں فوج کو شکست کھانا پڑی تھی جب جنرل ضیاالحق جیسے خرانٹ فوجی آمر کو شکست تسلیم کرنی پڑی تھی۔ 1978 میں صحافیوں نے اخبارات کی بندش کیخلاف تحریک شروع کی تھی جس میں صحافیوں کو کوڑے بھی مارے تھے تاکہ صحافی ڈر کر بیٹھ جائیں۔ مگر صحافیوں نے اپنی صفوں کو پھر سے درست کرکے 1979 میں کراچی سے دوبارہ تحریک شروع کی لیکن اس مرتبہ صحافیوں نے اپنے ساتھ مزدورں، کسانوں، طلبہ، اور سول سوسائٹی کے دیگر عناصر کو اتحادی بنا کر جیل بھرو تحریک شروع کی، سندھ کی تمام جیلیں رضاکاروں سے بھر گئی تھیں۔ جنرل ضیا بہت خوش ہوا کہ صحافی اور انکے اتحادی خود گرفتاریاں دے رہے ہیں، جنرل ضیا نے صحافیوں اور ان کی قیادت منہاج برنا اور نثار عثمانی کیخلاف ملک اور اسلام دشمنی کا پروپیگنڈہ شروع کردیا مگر فوجیوں کو علم نہیں تھا کہ صحافیوں نے کون سے اقدام چھپا کر رکھے ہیں۔ اچانک اعلان کیا گیا کہ گرفتار صحافی اور ان کے اتحادی جیلوں کے اندر تا دم مرگ بھوک ہڑتال کریں گے۔ فوج کی ہوائیاں اڑ گئیں انہوں نے پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ گرفتار لوگ جیلوں میں آرام سے کھا پی رہے ہیں مگر جلد ہی صحافیوں، ان کی قیادت اور اتحادیوں کی حالت خراب ہونے کی اطلاعات پھیلنے لگیں جیلوں کی مچانوں سے دوربینوں کے زریعے جائزہ لیا جاتا تھا کہ کہیں ہم لوگ کچھ کھا تو نہیں رہے ہیں، ہمیں گلوکوز دیئے جاتے تھے جو بیرک سے باہر پھینک دیتے تھے۔ آخر کار جنرل ضیا نے ہتھیار ڈال دئیے کہ وہ اتنی ساری لاشیں اٹھا نہیں سکتا تھا۔
جنرل ضیا کی فوجی حکومت نے سارے مطالبات مان لئے، اخبارات بحال ہوگئے۔ یہ موقعہ تھا جب جنرلوں کی حکومت کمزور ہوگئی تھی لیکن افغانستان میں روس کی آمد اور ایران میں خمینی کی کامیابی نے عالمی طاقتوں کو جنرل ضیا کا سہارا لینے پر مجبور کردیا پھر اس اثناء میں الذوالفقار نے طیارہ اغواہ کرلیا جس کے باعث جنرل ضیا کی حکومت مضبوط ہوگئی۔
اج کے حالات کا اگر 42 سال پہلے کے حالات سے موازنہ کریں تو باکل مختلف ہیں۔ اب دنیا بھر کا میڈیا یکجہتی کے ایک بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ یو ٹیوب، واٹس ایپ، سگنل، وائبر، اسکائیپ، زوم، وی لاگز سب ہمہ وقت موجود پھر دنیا بھر کے چینلز، ریڈیو، آن لائن ویب سائٹس، اور نیوز لائنز، سب موجود ہیں، پاکستانی حکومت جس جس پر پابندی لگائے گی۔ ویسے بھی دنیا بھر میں پاکستانی فوج کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومت اور فوج اب کےصحافیوں کو تنہا نہیں سمجھے بلکہ عالمی پس منظر میں وہ خود کو تنہا ہی پائیں گے۔
اگر لڑائی شروع ہوئی تو پھر فوج کا بھاری نقصان ہوگا ایک طرف پوری عوام اور دنیا صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہوگی جبکہ فوج ٹکٹکی کے ساتھ بندھی ہوگی۔ بہتر یہی ہے کہ صحافیوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے جتنے حملے ہوئے ہیں ان کے ملزمان کو سامنے لایا جائے، جو فوجی افسران ملوث ہیں ان پر عام عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں، صحافیوں کے تمام مطالبات تسلیم کرکے صحافتی امور میں مداخلت بند کردے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو شکست پھر مقدر بن جائے گی۔
جو کام سیاسی قوتیں نہ کرسکیں اس مرتبہ صحافی کرکے دکھا دیں گے۔
مصنف انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کونسل – ہانگ کانگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں. ان سے درج ذیل ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
baseernaveed@gmail.com