ڈاکٹر شکیل بلوچ
انسان کی زہنی تربیت اداروں سے ہوتا ہے، حالات سے نہیں، حالات محض انسان کے زہن میں سوالات اور جزبات پیدا کرتے ہیں کہ اسطرح کیوں اور کیسے ہوا؟ باقی ان کے صحیح جوابات تربیتی اداروں میں پائے جاتے ہیں، جہاں ماحول اور حالات سے پیدا ہونے والے جزبوں کو عملی جامع پہنانے کیلئے تعلیم اور تربیت کے زریعے ان میں نکھار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بغیر تعلیم اور تربیت کے یہ جزبے چند دنوں بعد دم توڑتے ہیں، پھر حالات اپنی پرانی ڈگر پر آکر رکتی ہیں جن سے کوئی فائدہ نہیں مل سکتا۔
کچھ لوگ اداروں کی اہمیت کو نظر انداز کرکے اپنے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر مطمئن ہیں کہ آج کے حالات اور رونما ہونے والے واقعات سے لوگ خود شعور حاصل کر رہے ہیں، حالات خود لوگوں کو بتاتے ہیں کہ راستہ کون سا ہے، اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ سوچ انتہائی خطرناک ہے، آرام اور آسائش پسند کارکن صرف اپنی زہن کی تسکین اور ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے ایسے تجاویز اور دلائل پیش کرتے رہتے ہیں، لیکن مستقبل میں یہ سوچ پریشانی اور مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتی، کیونکہ حالات ہر وقت آپکے حق میں نہیں ہوسکتے، اگر آج حالات اور ماحول آپکے حق میں ہیں تو ان حالات کو اپنے زیر قابو لانے کیلئے محنت اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان حالات اور واقعات کو پیدا کرنے میں ان لوگوں کی قربانیاں اور انتھک کوششیں شامل ہیں جنہوں نے ادارہ جاتی بنیادوں پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کی ہے، اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو آپ کو واضح طور پر معلوم ہو جائے گی کہ گزشتہ دہائیوں میں کون سے حالات تھے، لوگ کیا سوچتے تھے اور اُن حالات میں وہ کیا کرتے تھے تو پھر جاکر آپ کو اداروں کی اہمیت کا پتہ چل جاتا ہے کہ ماضی اور حال میں لوگوں کی طرز عمل، اور سوچ میں کتنا فرق پایا جاتا ہے، تب آپ کو اداروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، ماضی میں اگر ایسے ادارے نہیں تھے تو حالات بھی مختلف تھے، اگر آج حالات نے اپنا رخ تبدیل کیا ہے تو ان تبدیلیوں کے پیچھے تعلیم اور تربیت کا بڑا ہاتھ ہے۔
ایک سوچ اور نظریے کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے ادارہ جاتی بنیادوں پر کام کرنا ناگزیر ہے، اداروں کے بغیر چند عرصوں تک بچے کچے لوگوں کے عمل سے محض جزبات پیدا کیا جاسکتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ جزبات اپنی موت آپ مرتے ہیں، کیونکہ ایک درخت کو سبز رہنے اور پھلنے پھولنے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر کسان درخت کے سبز شاخوں کو دیکھ کر بس مطمئن رہے کہ اب ان کا سایہ بڑا ہے اور ٹیگ لگا کر بیٹھے کہ ان کے سائے میں سورج کی تپش کچھ اثر نہیں ڈال سکتی تو کچھ مدت کیلئے بغیر پانی سے درخت آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہوتا ہے، اور انکے سبز پتّے خشک ہوکر گرنا شروع کرتے ہیں بالآخر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ سورج کی تپش درخت کے بنیادی جڑوں تک پہنچ جاتا ہے، اور درخت کی لکڑیاں خشک ہوتے ہیں اور آخر کار درخت کی بنیادی سٹم/تنا بھی گر جاتی ہے، اسطرح جزبوں کو شعوری سانچے میں ڈالنے کیلئے اداروں کا ہونا لازمی ہے، بغیر اداروں کے مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ رکھنا اور امیدیں باندھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ لوگ محض حالات کے آسرے میں بیٹھکر مطمئن ہیں دراصل انکی مانند دھیمک کی طرح ہے جو لکڑی کے اندر رہ کر انکو چاٹتی ہے ان لوگوں کی مثال کچھ اسطح ہیں، یہ لوگ تھکے ہارے ہوتے ہیں، ان پر بھروسہ بھی نہیں رکھا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ لوگ کسی بھی وقت آرام و آسائش کو دیکھ کر اپنے سوچ اور نظریے کو تبدیل کرسکتے ہیں، ایسے لوگ اپنے ساتھیوں کے طے کئے گئے مسافات کو نہیں دیکھتے، بس آخرکار کچھ بہانہ ڈھونڈتے ہیں کہ جی ہم نے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لائی ہے، اصل پالیسی تو اب مرتب کئے گئے ہیں، پہلے تو ہم میں اتنا شعور او پختگی نہیں تھا، جسکی وجہ سے ہم نقصانات سے دوچار ہوئے۔
ایسے لوگ اپنی سچائی کو تسلیم کروانے کیلئے ایسے من گھڑت اور پختہ دلائل پیش کرتے ہیں جنکو عام اور کمزور زہن جلد تسلیم کرتے ہیں۔ کمزور لوگوں کو ایسے لوگوں کی باتیں انتہائی متاثر کرتے ہیں کہ واقعی یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں، کیونکہ ان لوگوں نے حالات اور واقعات کا بخوبی تجربہ کیا ہے، ان تجربہ شدہ لوگ صحیح ہوسکتے ہیں ہمیں انکے نقش قدم پر چلنا ہے۔
دوسری جانب اگر انکے برعکس کوئی حقائق پر مبنی دلائل پیش کرے تو انہیں بے وقوف، نادان اور نفسیاتی قرار دیا جاتا ہے، اور انہیں ہر طرح ناکام کرنے اور لوگوں کے اعتماد اور بھروسے کو توڑنے کیلئے بے انتہا کوششیں کی جاتی ہیں، انکے خلاف ایسے پروگرام منعقد کروائے جاتے ہیں جو لوگوں کو متاثر کرکے انہیں اپنی طرف کھنیچنے میں مفید ثابت ہوں۔ لیکن جب وقت اور حالات جونہی آگے کی طرف بڑھتے ہیں تو ایسے آرام اور آسائش پسند لوگوں کے چہرے بے نقاب ہونا شروع ہوتے ہیں، حقیقت خود کو عیاں کرتا ہے تو آہستہ آہستہ میدان ان آسائش پسندوں کیلئے گراں ہوتا ہے۔
آخر اگر ان کے برعکس کچھ لوگ ادارہ جاتی سرگرمیوں کو پہلے سے جاری کرنے کی کوششوں میں مصروت رہے ہیں تو وہ دوبارہ حالات کو اپنے قابو میں لیکر پھر ان کو اپنے اصل ڈگر پر لانے میں جلد کامیاب ہوسکتے ہیں، اگر خدانخواستہ انکے متبادل اگر ادارہ جاتی بنیادوں پر کام کرنے پر زور نہیں دیا گیا تو اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ثابت ہوگا اور ان میں بچے کچے لوگ مایوسی میں مبتلا ہوتے ہیں اور یونہی ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں مل سکتا۔