ینگون سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق آج 28 فروری کے روز فوجی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مطاہرین پر ملک کے مخلتف حصوں میں سکیورٹی دستوں کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں مزید کم از کم چار افراد کی ہلاکت کے علاوہ بیسیوں مظاہرین زخمی بھی ہوگئے۔
یوں جمہوریت کے حق میں ان عوامی احتجاجی مظاہروں کے دوران اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔ قبل ازیں ان مظاہروں کے دوران کل ہفتے کے دن پولیس نے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ آج بھی ان مظاہروں کے درجنوں شرکاء کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس ایشیائی ملک میں فوج نے یکم فروری کو منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس فوجی بغاوت کو اگرچہ عوام نے ناپسند کیا گیا تھا تاہم شروع کے چند روز ملک میں مظاہروں کا آغاز نہیں ہوا تھا۔
پھر کچھ روز بعد فوج کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا اور اب یہ جمہوریت نواز مظاہرے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ پولیس کا ملک بھر میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن آج مسلسل دوسرے روز بھی جاری ہے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، جس پر بین الاقوامی سطح پر تشویش بھی شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔
ایک آزاد ریاست کے طور پر میانمار کی سیاسی تاریخ میں ملکی فوج اب تک تقریباﹰ نصف صدی تک اقتدار میں رہ چکی ہے۔ تازہ ترین فوجی بغاوت کے بعد جہاں اب ہر روز لاکھوں کی تعداد میں عام شہری فوجی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں، وہیں اس ملک میں ایک بار پھر فوج کے اقتدار پر قابض ہو جانے کی دنیا بھر خاص طور پر مغربی ممالک کی طرف سے شدید مذمت بھی کی جا رہی ہے۔
میانمار اکثریتی طور پر بدھ آبادی والا ملک ہے، لیکن وہاں مسلمان اور مسیحی بھی بڑی اقلیتیں ہیں۔ میانمار کے پہلے کیتھولک کارڈینل چارلس ماؤنگ بو نے ملکی صورت حال کے بارے میں ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا ہے، ”میانمار اب ایک میدان جنگ جیسا ہے۔‘‘
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.