غلام مصطفٰی (جی ایم)
ہروہ چیز جس سے کسی فرد یا گروہ کو کم قیمت، کم وقت اور کم محنت سے کسی چیز کے متبادل میں زیادہ منافع بخش چیز (پیسہ ، زمیں ،زن ، زیور یا آسائش زندگی )ملے تو وہ فرد یا گروہ اسے کاروبار بناتا ہے اور ہر فرد یا گروہ چاہتا ہے کہ اس کا کاروبار زیادہ سے زیادہ چلے تاکے اسے منافع بھی زیادہ ہو۔ کچھ سرمایہ دار انسانوں نے اپنے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ چلانے کیلیے مختلف الگ راستے اپنائے جو بہت ہی زیادہ خوفناک ، ظالمانہ ، اور غیرانسانی تھے لیکن وہ سلسلے ابھی تک چل رہے ہیں اور آنے والے وقت میں اس سے بھی زیادہ برے حالات آنے کے خدشے ہیں۔ ان خدشوں میں سب سے برا خدشہ “”پانی کی قلت “”ہے
میں آپ کے سامنے چند مثالیں پیش خدمت کرتا ہوں
(1)ادویات ساز کمپنیاں (میڈیسن)
جن سرمایہ داروں کا سرمایہ ادویات سازی میں لگا ہوتا تھا تو وہ مخصوص علاقوں کے کھانوں کی چیزوں، پانی اور فضا میں ایسے کیمیکلز ملاتے جن سے عام لوگوں کو مخصوص قسم کی بیماری لاحق ہوتی اور اس کے بعد ان کمپنیوں کے نمائندے مختلف ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹور والوں کو اچھے اچھے پیشکش( آفرز) دے کر اس کے عوض انہی بیماریوں کے اپنے کمپنی کی دوائیاں فروخت کرواتے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
(2) ہتھیار ساز کمپنیاں ( آرمز انڈسٹری)
جن سرمایہ داروں کا سرمایہ ہتھیارسازی میں لگا ہوتا تھا تو وہ مختلف حربوں اور چالوں سے دو ملکوں ، قوموں ، مافیا اور گروہوں کو آپس میں لڑواکر اپنے ہتھیار فروخت کرواتے تھے۔ آج کل یہ کمپنیاں ایک ریاست کو دوسرے ریاست سے ڈرا کر اپنے ہتھیار فروخت کرتے ہیں اور اکثر ممالک اپنا زیادہ تر پیسہ ملک کے دفائی نظام یعنی جدید ہتھیاروں پر خرچ کرتے ہیں۔
(3) نشہ ساز کمپنیاں (ڈرگ کمپنی)
جن سرمایہ داروں کا سرمایہ نشے ساز کمپنیوں میں لگا ہوتا تھا تو وہ مختلف طریقوں سے نشہ کرنے کو ایک اچھا عمل ، صحت بخش ، برانڈد ہونے اور غم و پریشانیاں سے سکون حاصل کرنے کا ایک ذریعہ کے طور پیش کرتے تھے۔ مثال کے طور پر آپ سنگریٹ کی تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ جب پہلی مرتبہ سنگریٹ متعارف کروایا گیا تو اسے بطور صحت و سکون بخش دوا کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور باقاعدگی سے اس کے اشتیار بھی چلائے جاتے تھے اور بعد میں لوگ سگریٹ پینے کو ایک برانڈڈ انسان ہونے کے مترادف سمجھنے لگے تھے۔ جیسے کہ آج کل آئی فون رکھنے سے لوگ خود کو ایک برانڈڈ اور امیر انسان سمجھتے ہیں۔
شراب نوشی کرنا بھی ایک برانڈ ہونے کی نشانی سمجھا جاتا تھا اور آج بھی امیر ، جاگیردار ، سردار ، نواب اور سرمایہ دار لوگ شراب نوشی کو برانڈڈ ہونے کی نشانی سمجھتے ہیں۔ آپ نے شاید غور کیا ہو کہ فلموں میں ہیرو(فلم کا نمایا کردار) شراب نوشی کرنے اور سنگریٹ پینے کے انداز کو بڑے پرکشش(اسٹائلش) اور برانڈد انداز میں پیش کرتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ منظر (سین) فلم کا حصہ ہوتا ہے اکثر ایسا نہیں ہوتا ہے یہ سین نشہ ساز کمپنیاں بھاری معاوضہ فلم بنانے والے کو دیکر یہ منظر (سین) فلم میں ڈلواتے ہیں تاکہ لوگ اس کمپنی کے نشے کو استعمال کرنا خود کو ہیرو اور برانڈڈ یعنی ایک خاص اور امیر انسان ہونے کے مترادف سمجھنے لگیں۔
(4)پانی کا کاروبار( بزنس آف واٹر)
پانی انسانی کی سب سے بنیادی ،اول اور روزانہ کی ضرورت ہے ۔پانی کے بغیر انسان ایک ہفتہ بھی بامشکل زندہ رہ سکتا ہے۔ زمیں پر پانی بےتہاشہ دستیاب ہے لیکن وہ پینے لائق نہیں ہے۔ زمیں پر% 71 فیصد پانی ہے اور %29 خشک زمیں ہے ۔پانی کے %71 فیصد میں سے صرف %3 فیصد میٹھا پانی ہے بقایا %68 سمندر ہے۔ میٹھے پانی کا %2 فیصد پانی گلیشئرز میں برف کی صورت میں جماہوا ہے جبکہ %1 فیصد پانی زیر زمین ، دریا ، جھیلوں اور ندیوں میں موجود ہے۔ آنے والے وقتوں میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کی نظریں پانی پر ہیں اور وہ اس %3 فیصد میٹے پانی کے ذخائر کو خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ معدنیاتی پانی یعنی ‘منرل واٹر’ کے نام پر صنعت اور کمپنیاں بناکر پانی کا کاروبار کر سکیں۔ جس سے انہیں بےتہاشہ منافع مل سکتا ہے اور یہ پانی کا کاروبار عرب ممالک میں ابھی بھی ہورہا ہے جہاں پر پیٹرول اور سوڈا مشرابات سے زیادہ مہنگا پانی ملتا ہے-
پانی کے قلت کے مسئلے کے بےشمار حل ہونگے لیکن وہ اسے کبھی حل نہیں کرنا چاہینگے۔
غلام مصطفیٰ لسبیلہ کا نوجوان لکھاری ہے سیاست اور سماجیات اس کے دلچسپی کے موضوعات ہیں ۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.