ندیم ودار
جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعتیں یا تو قدامت پسندی اور یا پروگریسو پسندی کے تحت اپنے منشور پہ عمل کرتے ہیں۔ لہٰذا سوسائٹی بھی قدامت پسندی اور ترقی پسندی کے نظریات میں تقسیم ہو جاتی ہے، اور انتخاب کے موقع پر یہ نظریاتی کشمکش پوری طرح ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم پاکستان کی تاریخ کے ابتدائ دور کو دیکھیں تو یہی سیاسی کشمکش نظر آتی ہے۔ خاص طور سے 1970 کے انتخابات میں سیاسی نظریات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جو افراد ترقی پسند نظریے کے حامی تھے انہوں نے خاص طور پہ آمرانہ حکومتوں کی مزاحمت کی۔ یہ لوگ جیلوں میں بھی اسیر رہے۔ شاہی قلعے میں اذیت برداشت کی۔ ضیاءالحق کے دور میں سرِ عام کوڑے کھائے اور جلاوطن ہوئے لیکن پاکستان کی سیاست میں اس وقت تبدیلی آئی جب ضیاءالحق کے آمرانہ حکومت کے بعد جمہوریت آئی مگر عوام کی توقعات پورے نہیں ہوئے اور لوگوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس نے نا امیدی اور مایوسی کے جزبات کو پیدا کیا اور تبدیلی کے خواہش میں عوام نے جو قربانیاں دی تھیں اس کی ناکامی نے لوگوں کی سیاسی فکر کو بدل دیا۔
لہٰذا اب پاکستان کی سیاست میں اب نظریات کی کوئی کشمکش نہیں۔ سیاسی جماعتیں نہ تو قدامت پرستی کی نمائندگی کرتی ہیں اور نہ ترقی پسندی کی۔ یہ خاندانوں کی موروثی جاگیریں بن کر رہ گئیں ہیں۔ ان کے کارکن ان جماعتوں کی حمایت کسی نظریے کی بنیاد سے زیادہ مفاد پرستی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اس تبدیلی اور سیاسی عمل نے پاکستان میں سیاست کو مسخ کر کے فرسودہ بنا دیا ہے۔
اس صورتحال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام عوام کےلئے کوئی خوشخبری لے کر نہیں آیا لیکن یہ بھی نظر آتا ہے کہ یہ غلامی اپنی کمزوریوں اور بد عنوانیوں کے بوجھ سے ڈوب رہا ہے، تو اس صورت میں تبدیلی کا آنا اور کسی ایک نظام کا ابھرنا لازمی ہو جاتا ہے۔