نصیر بلوچ
وفاقی حکومت کو بلوچستان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں- ہاں البتہ نئی حکومت بھی معمول کی طرح بلوچستان کے وسائل لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔ نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف نے جب سے حلف اٹھایا ہے تو لوگوں نے ایک نئی امید باندھ لی ہے لیکن وہ لوگوں کے امیدوں پر پورا اترتے نظر نہیں آیا۔ چونکہ عدم اعتماد کی تحریک میں بلوچستان کی اکثریت موجودہ حکومت کے حامی تھے لہذا اب بلوچستان کی پوری قیادت کو چاہئے کہ وہ نرم رویے کو ترک کرکے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے بلوچستان میں حالیہ رونما ہونے والے نوکنڈی کے دل سوز واقعات کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کریں۔
وفاقی حکومت نے بلوچستان کو ہمیشہ پسِ پشت رکھا ہے اسی لئے بلوچستان کے لوگوں میں ایک انتہائی خطرناک ذہنیت جنم لے چکا ہے۔ یہ ذہنیت یوں پیدا نہیں ہوا ہے دہائیوں سے جاری ظلم و ستم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ ذہنیت ابھی جڑیں پکڑنے کے مرحلے میں ہے اور یہ ذہنیت کے حامل لوگ ابھی بھی اداروں اور ریاست پر یقین رکھتے ہیں، اور آئے روز اپیل کرتے ہیں کہ انہیں سنا جائے انکے مسائل حل کیے جائیں، لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں جو حکومت سے نوکریاں نہیں بلکہ محض بارڈر کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بلوچستان کے اکثریت نوجوانوں کا روزگار بارڈر سے منسلک ہے، بارڈر کی بندش سے نوجوان دیگر راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، پنجگور کا مثال لیجئے آئے روز چوری ڈاکہ اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے جن کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔
بلوچستان کے عوام کی چیخ و پکار ہر دورِ میں جاری ہیں۔ حکومتیں بدلتے ہیں لیکن بلوچستان کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ وفاقی سیاسی قیادتیں جب اپوزیشن بینچز پر ہوتی ہیں تب انہیں بلوچستان کے مسائل نظر آتے ہیں اور یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں ظلم کی داستان رقم ہورہی ہے لیکن وہی نمائندے جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان مسائل کے متعلق سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ مین اسٹریم میڈیا کو تنبیہ کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا تذکرہ نہ کریں۔ وقفہ کا دورانیہ بڑھائیں چاہے تو کوئی بھی شو چلادیں لیکن یہ نہ ہو کہ بلوچستان کے مسائل زیر بحث آجائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی رہنما جمہوریت کی ہوا چلنے کی نوید سنا چکے ہیں۔ اگر واقعی جہموریت کی بالادستی ہوئی ہے جو ہم سمجھتے ہیں ہونی چاہئے تو بلوچستان کے محرومیوں کو دور کرکے بلوچستان کو انصاف دیا جائے۔ یہاں تو فردِ واحد کو انصاف ملنا مشکل سے ناممکن بن چکا ہے اور ایسے میں ہم بلوچستان کو انصاف دینے کی بات کر رہے ہیں جو یقیناً ایک غیرمعمولی عمل ہوگی۔ واقعات کی نوعیت میں فرق ضرور ہے لیکن کوئی ایسا دن نہیں جس میں بلوچستان کی سرزمین خون سے آلود نہیں ہوا ہو۔
گزشتہ دنوں آواران کے ایک زمیاد ڈرائیور نوربخش ولد اللہ بخش کو بلیدہ میں چوروں نے بے دردی سے قتل کردیا۔ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے 7 اپریل 2019 کو استاد علی نامی ڈرائیور کو انہی پہاڑوں میں چوروں نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔ بے روزگاری سے تنگ لوگ دو وقت کی روٹی کمانے بلیدہ اور بارڈر کا رخ کرتے ہیں جہاں انکی لاشیں کبھی ان کے ورثہ کو ملتی ہیں تو کبھی چھیل کوے کھا جاتے ہیں۔ حالیہ شہید نوربخش کی لاش جس حالت میں ملی ہے اسے دیکھ کر کمزور دل شخص تو لزر اٹھ جائے۔ شہید نوربخش کو قتل کرکے گاڑی ڈیزل سمیت لے گئے۔ شہید نوربخش کے تعزیت کو گئے تو وہاں انکے اہل خانہ سے بات ہوئی انہوں نے کہا ہمیں دور دور تک کوئی کاروائی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہمارا بندہ تو واپس نہیں آسکتا لیکن ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس پر کاروائی عمل میں لائی جائے اور ہمیں گاڑی برآمد کرکے واپس کیا جائے جو ہماری واحد زریعہ معاش ہے۔ میں ان کے توسل سے ڈی سی کیچ حسین جان سے عرض کرتا ہوں کہ وہ اس پر سخت کاروائی عمل میں لائے اور شہید نور بخش کے اہل خانہ کو انصاف فراہم کرے-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.