غنی حسرت
بلوچستان خصوصاً ڈسٹرکٹ خاران کا سیاسی ماحول اس وقت کئ غیر سیاسی پینلز کی لیپٹ میں مر مر کے جی رہا ہے۔ اگر پینلز یا پینلزم کے موضوع کو لے کر پورے بلوچستان پہ تبصرہ کیا جائے تو بات بہت دو تک چلی جائے جس سے شاید میں اپنے آبائی علاقے خاران کے سیاسی مستقبل کو بچانے کی کوشش نہ کر پاؤں اسی لیے اس موضوع کو لے کر فلحال رخشان ریجن خصوصا ڈسٹرکٹ خاران پہ ہی بات کرتے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے اگر خاران کی سیاسی تاریخ کا ہم مطالعہ کریں تو یہ دیکھنے کو ملے گا کہ غیر سیاسی پینلز کا کمی کے بجائے بلکہ ان میں اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے ۔ جن میں سر فہرست خاران پینل، محمد حسنی پینل، الفتح پینل، نوشیروانی پینل، چیف پینل، خاران عوامی تحریک پینل اور حال ہی میں بننے والی متحدہ خاران پینل کے سرفہرست ہیں جو خاران کی سیاست کو ایک مخصوص اور محدود سوچ تک بلاک کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں خاران کی سیاسی ایکٹویٹیز خصوصا نظریاتی قوم پرست جماعتوں کو ختم کرنے اور ان کی جگہ قبائلی اور محدود سوچ عوام پے مسلط کرنے پے لگے ہیں۔ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔
بلوچستان کی قوم پرست نظریاتی پارٹیاں جن کے لیڈرز بی ایس او اور دیگر طلبا تنظیموں سے ردوم پا کر اس مقام تک پہنچے ہیں۔ ان کی سوچ و فکر کا محور ایک ہے وہ ایک ہی قوم اور وطن کے مالک ہیں ان کی ثقافت اور روایات میں یکسانیت ہے زبان کی مٹھاس شہد جیسی ہے۔
خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنتے ہیں ۔پارٹیوں کے منشور میں عوام کی بالادستی قائم ہے پارٹی عہدہ داروں کے فرائض اور اختیارات میں کوئی تفاوت نہیں ہے نیشل پاور کو عوامی پاور کے نام سے جانا جاتا ہے قومی مفادات کا مفہوم سب کے سامنے ہے- نوجوان طبقہ بی ایس او اور قوم پرست و نظریاتی پارٹیوں کے بدولت جدید ٹیکنالوجی اور علوم وفنون کے زیور سے آراستہ اور شعور آگاہی کی قوت سے لیس ہے۔ ذہن کی پختگی اس قدر سخت کہ پتھر کا جواب بھی پھول دے دیں اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل سے مطمئن ہیں انکو اپنے سیاسی نظام اور قائد پر اعتبار ہے۔ ورکر کی ایک ووٹ پر ہار اور جیت ہوسکتی ہے اسی پوائنٹ آف ویو کو لے کر اگر دیکھا جائے تو قوم پرست اور نظریاتی پارٹیاں بلوچستان کے حق و حقوق کی ترجمانی اور ترویج و ترقی کے لئے مین رول ادا کر رہے ہیں-
مگر اس کے برعکس اگر پینلز یا پینلزم کی سربراہوں اور ان کی سوچ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو یہ ہمیں ایک ہی جھٹکے میں محسوس ہوتا ہے ان کا نہ کوئی نظریہ ہے نہ ہی یہ طلبا تنظیموں کے پیداوار رہے ہیں نہ ہی انہیں سیاست کے الف ب کا پتا ہے نہ ہی یہ عوام کی حق و حقوق پہ کسی بھی پلیٹ فارم پر ترجمانی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان پہ اگر کوئی تنقید کرے یا انکی نام نہاد غیر سیاسی پینل اور محدود سوچ پہ اگر کوئی سوال اٹھائیں اسکا جواب پھول سے دے سکتے ہیں کیوں کہ یہ لوگ گملے سے پیدا ضرور ہونے والے اور یہ نہیں سوچتے کہ انہیں ڈیلی اگر ایک لوٹا پانی نہ ملا تو یہ مرجا جائیں گے بلکہ ایک لوٹا پانی اور محدود سوچ کے بل بوتے پر یہ اسمبلیوں تک جانے کی ناکام سوچ رکھتے ہیں طلبا تنظیموں قوم پرست نظریاتی پارٹیوں کی جو مثبت سوچ عوام کے ذہین میں ہے انہیں ختم کر کے عوام کے ذہن فالج زدہ کر کے اسے اس کے گھر محلے اور قبیلے تک محدود کر کے قومی اتحاد یا فلانہ پینل زندہ باد کرنے کا رٹ لگانے پے مجبور کرتے ہیں۔
اگر ایسے ہی روز بہ روز پینلز یا پینلزم ہم پہ مسلط ہوتا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنے نظریاتی سوچ سے ہاتھ دو کر ان پینلز کے پیچھے خود کی سوچ کو قتل کر کے جگہ جگہ نفرت ہی پھیلاتے رہیں گے اور اپنے نوجوان طبقے کی سیاسی مسبتقل کا گلا گھونٹ کر ماتم کی جشن ہی مناتے رہیں گے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.