تحریر: کے بی فراق
جب آپ نے ہر ضلع میں سال بہ سال تبلیغی اجتماعات کو دیکھا اور خاموش رہے، ہر گلی محلے میں ان لوگوں کو پیر بخش اور بالاچ کا نام عبداللہ رکھتے ہوئے دیکھ کر بھی چُپ رہے اور ایک محترم اور بظاہر ترقی پسند و روشن خیال قوم پرست سیاسی شخصیت اپنے علاقے میں منعقدہ تبلیغی اجتماع کی تیاری کرتے، شامیانہ لگاتے اور پنڈال کو بناتے وقت بمبو کو ٹھیک کرتے ہوئے خوش ہوتے دیکھا اور بباطن وہ خوش رہے کہ ان کا بھی ووٹ اگلے الیکشن میں واجہ کے حصے میں پڑنے والا ہے۔
لیکن اس سلسلے میں بھی آپ نے ان کو بھرپور کاندھا دیا اور تب تک دیتے آئے ہیں۔
جب انھوں نے ریاست کی سرپرستی میں وہ کچھ کرنا چاہا جو بلوچستان میں کرتے گئے اور اپنی فسطائی سرشت مذہبی فکر کو نفوذ کرنے کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے تاکہ اس سرزمین کو تکفیری عناصر کی فکر سے مجسم کریں کیونکہ اس کے بعد پھر آپ کا یعنی بلوچ کا جو طرزِ معاشرت ایک طرح سے اپنی سی روایت کے جِلو میں سیکولر طرزِ احساس کی شکل میں ثقافتی ورثہ کے مانند ہوا کرتا تھا، ہے نا ایک دلپزیر حوالہ، جس میں دوسرے کو دوسرا کہنے کی مزہبی بنیاد پر مخاصمانہ جہت کبھی تھیں ہی نہیں ۔جس کو انتشار خیالی اور ناسور ایسے غیرانسانی جہت سے بھر دیا گیا کہ اس مین اب کے سانس لینا دوبھر ہوتا جارہا ہے ۔۔ حالاں کہ ہم نے بچپن سے لے کر لڑکپن اور جوانی کی دہلیز تک قدم رکھتے ہوئے کبھی اپنے گھر میں کسی بڑے کو یہ درس دیتے ہوئے قطعی نہیں دیکھا اور نہ ہی سُنا کہ اپنے سے مختلف مزہب یا اس کی بیانیہ اور نکتہ نظر اور اس بابت سوچنے والے کسی شخص کی زندگی کا خاتمہ کریں۔اس لیے اس میں مزہبی ڈسکورس کے لیے کوئی الگ سے تکفیری شناختی حوالہ نہیں تھا بلکہ انکلوژن کی ایک انسانیت آموز برتر روایت کی صورت رہی ہے۔
جب ہم آپ کچھ کرنے سے رہے ۔جب کہ ہماری ترجیحات میں سماج اور اس سے جُڑے مسائل کو ترقی پسندانہ اور روشن خیالی کی برتر سطح پر سوچنا اور عملی زندگی میں ارتباط کا تناظر دینا ، بنیادی حوالہ و مسئلہ نہیں رہا اور ایک طرح سے ملغوبہ کی سی صورت وضع کرنے میں منہمک رہنے لگے تو بولان گرائمر اسکول کے ٹیچر کو توہین رسالت کا اسکول کے بچوں کی زبانی توہین کے مرتکب قرار دیے جانے اور پھر قتل کیے گئے عبدالرؤف کے ساتھ پیش آنے والا افسوس ناک اور انسانیت سوز واقعہ متوقع ہونا ہی ہونا تھا۔۔۔۔۔ آج نہیں تو کل اس ازیت کوش صورتحال سے دوچار ہونا ہی لازم ٹھہرا اور یہی نوشتہ سمجھ لیں۔کیونکہ ہمارے ہاں تدبر کا یہ عالم ہے کہ جب تک کوئی واقعہ صورت پزیر نہ ہو ۔اس لیے یہ سب ہوتے دیکھنا اور تب تک کچھ نہ کہنا جب تک کہین سے کوئی یہ صورت در نہ آئے تب تک سمجھنے سے قاصر رہے کہ ہم جا کہاں رہے ہیں۔اس فکر کو روشن کرنے کے لیے آپ کو تو اپنی زمین پر بیٹھ کر لوگوں میں رہ کر کام کرنا پڑے گا جس طرح ڈارک فورسز لوگوں میں ایسے رچ بس گئے کہ ہماری طرح کے لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہ رہی۔
ویسے بھی ہماری طرح کے لوگ مائل بہ مذہب ہوتے گئے اور انہی تبلیغی اجتماعات کے پہلے یا دوسرے صف میں پائنچے ٹخنے سے اوپر اٹھا کرعبادت کے بعد نام لکھوانے میں مصروف رہے۔ البتہ اس بیچ معاشرے میں موجود بے سمتی سے لاتعق ہو کر آپسی اگر مگر میں کہیں پھنس کے رہ گئے اور پھر کہیں کے بھی کسی کے بھی نہ رہے۔
اس لیے تربت کو قبلہ کہنے والے ذرا رومانس نکلیں اور حقائق پر مبنی تجزیہ کرتے ہوئے عوامی رائے کی استواری میں کردار ادا کریں۔یہ تو بلاسٹ تھا جس کا ایک نمونہ گوادر کے ایک طالب علم نے بھی بڑی ازیت کی صورت دیکھا شاید گوادر کے ماحول اور آب و ہوا میں کچھ بہتری کی صورت دکھائی دی اس لیے طالب علم کی زندگی باقی رہی۔ لیکن تربت کے جنونی ملائیت اساس ذہنیت نے وہ کچھ کیا کہ اس پر مالکی حنبلی شافعی اور حنفی والے اسلامی مکتبہ فکر یا اس کے علاوہ بھی کسی بھی طرح انسان نام کی مخلوق کو اپنے خالق کے ساتھ خود وابستہ رہنے کے لیے مانع نہ ہوں اور نہ کسی معصوم انسان کی سانسیں سلب کرنے کا باعث بنیں۔اس واقعہ نے بلوچستان کے علماء کی تربیت سے زیادہ پنجاب کے مذہبی فسطائی عزائم کو آئینہ کیا۔جو بلوچستان کے گلی کوچوں میں تبلیغ کے نام پر دندناتے پھرتے ہیں کہ آج بلوچ میں مقامی ناموں کو اسلامائزیشن کے عمل سے گزارا جا رہا ہے اور لوگوں کی انٹنجیبل کلچرل ہریٹیج کو تکفیری فکر کے تحت نابود کرتے جا رہے ہیں۔جو آگے چل کر عبدالرؤف ایسے تعلیم یافتہ نوجوان کو قتل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔البتہ اس انسانیت سوز قتل کو لے کر بلوچستان اور بلوچ کی فکر کرنے والے کیا کچھ سوچتے ہیں؟ اس طرح کی سوچ رکھنے والے ڈارک فورسز کی تدارک اور معاشرے میں بہتری لانے کی بابت نظر رکھتے ہیں یایونہی معمول کاواقعہ سمجھ کرفراموش کاری کے حوالے کرتے ہیں۔؟
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.