بختاور بلوچ
اُمیدیں!!!۔
تھی کچھ اُمیدیں جن کو پرواز کرنا تھا،جن کو اُڑان بھرنا تھا۔اُمیدیں جن کو اپنی منزل تک پہنچنا تھا۔وہی اُمیدیں بکھر کر رہ گئے۔ہاں!وہی اُمیدیں جن کو کچھ لوگ اپنی عشق و جنون کی معراج سمجھتے تھے یہں اُمیدیں پرِ جبراہیل کی مانند جل کر راکھ ہوگئے۔اُمیدیں کوہ ءِ طور کی مانند ریزہ ریزہ ہوگئے۔اُمیدیں سمندر کی لہروں میں بہہ گئے،اُمیدیں آفتاب کے ساتھ ڈوب گئے۔اُمیدیں بارشوں میں تھم گئے۔اُمیدیں سوکھے پتّے کی طرح اُجڑ گئے۔اُمیدیں برف کی مانند پگھل گئے۔اُمیدیں چلتی گھڑی کی مانند رُک گئے۔اُمیدیں ہواؤں کے چکر میں لاپتہ ہوگئے۔اُمیدیں صحراؤں میں مدغم ہوگئے۔اُمیدیں بیمار شخص کی ہمراہی میں انتقال کر گئے۔
ہماری بھی اُمیدیں تھی کہ پڑھ لکھ کر آسمان کو چھومے گے سالوں اور صدیوں تک ایک ہی اُمید رکھتے آرہے ہیں اور ان اُمیدوں کو سہرا پہنانے کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں پر ہماری اُمیدوں کا شیرازہ بکھرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا۔ایک دم نَس کی طرح کاٹ دیتے ہیں۔ایک ہی لمحے میں سانسوں میں روک لی جاتی ہیں۔ہماری اُمیدوں پر دھول اور مٹی پھینک دیتے ہیں۔یہ ہماری اُمیدیں ہیں کوہی کِھلونا نہیں جن کے ساتھ کھیل کھیل کر توڑ پوڑ دیا اور پھر کچروں کے ڈھیر میں پھینک دیا۔یہ ہماری امیدیں ہیں سوکھے پتّے نہیں جن پر پاؤں رکھ کر کچل دیا۔یہ ہماری اُمیدیں ہی ہیں جو ہماری تخلیق کا مجموعه ہیں۔یہ ہماری اُمیدیں ہیں جو ہمارے زندہ ہونے کے اسباب ہیں۔یہ ہماری اُمیدیں ہیں۔
ہم انہی اُمیدوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھروں سے دور ہیں۔اپنی اُمیدوں کو جامعہ پہنانے کے لیے اپنے حال سے بے خبر اپنے آپ کو کتابوں کے حوالے کرتے ہیں۔اپنی بھوک،پیاس اور تھکن کو پسے پشت ڈال کر خود کو کتابوں میں جزب کرتے ہیں اور بس پڑھتے رہتے ہیں۔
کیا لگتا ہے ہمیں اپنے یاد نہیں آتے ہیں؟
پڑھنے لکھنے بیٹھ جاتے ہیں تو کتنوں کی یاد آتی ہیں پر بھلا دیتے ہیں کیونکہ اپنی منزل کو سامنے دیکھتے ہیں۔
پڑھتے پڑھتے کبھی بھوک لگ جاتی ہیں تو ماں یاد آتی ہے کہ اگر ماں ہوتی تو کچھ کِھلاتی،کچھ پلاتی۔اگر بیمار پڑ جاتے تو اپنی شفیق و ہمدرد بہنیں یاد آتی ہیں کہ کاش بہن ہوتی اور اس حالت میں ہمارا خیال رکھتی۔کبھی کبھی پڑھتے پڑھتے اپنی حالت پر رونا آتا ہیں تو سوچتے ہیں کاش ہنس مکھ بھاہی یہاں ہوتا تھوڑا ہنسا ہی دیتا۔کبھی تھک جاتے یا نااُمید ہوتے تو والد یاد آتے ہیں کہ کاش ہمارے ابّو یہاں ہوتے تو سر پر ہاتھ رکھتے اور ہمت بندھاتے کاش ایسا کچھ ہو پاتا۔پر دل پر پھتر رکھ کر پھر سے ان کی مہر و محبت کو نظر انداز کرکے قلم اور کتابوں کی طرف نظر دوڑائی اور سینے سے لگایا کہ میں پڑھوں گا اور کرکے دکھاؤں گا۔میں اپنی اُمیدوں کو ایک نام دونگا۔ان کو پرواز دونگا۔
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟کیا ہمارے ساتھ ناانصافی نہیں ہو رہی؟کیا ہمارے ساتھ کچھ غلط نہیں ہورہا ہے؟کیا ہماری محنت کو دھتکارا نہیں جارہا ہے؟کیا ہماے جزبات سے کھیل نہیں رہیں ہیں؟کیا ہمیں دلدل میں گرانے کی کوشش نہیں کررہے ہیں؟کیا ہماری اُمیدوں کو کالے چادر میں لپیٹا نہیں جارہا ہیں؟کیا ہمارے ساتھ کچھ بھی نہیں ہورہا ہیں؟
ہم طالب علم اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے،اپنے منزل تک پہنچنے کے لیے اپنوں کو اپنے علاقے کو خیرآباد کہتے ہوہےکسی انجان علاقے میں قدم رکھتے ہیں،انجان لوگوں میں رہتے ہیں بس ان مقاصد و اُمیدوں کے خاطر کہ ہمیں کچھ بننا ہیں۔پر کیوں نہیں؟کیوں ہمارے راستوں میں کنکر پھینکے جارہے ہیں؟کیوں ہمارے راستوں میں کانٹے بچھاہیں جارہی ہیں؟آخر کیوں؟آخر کس لیے؟
آخر کیوں ہر وہ شخص جو امیدوار ہے،اذیت خانوں میں ہے،اذیتیں سہہ رہا ہے،سسکتا،بلکتا ہوا مر رہا ہے؟کیوں اجتماعی قبروں کی نذر بنتا ہے؟کیوں خون کے دریا میں ڈوبتا ہے؟کیوں؟وہ شخص جو اپنوں کا سہارا بننا چاہتا تھا کیوں آخر کسی کے کندھے کا محتاج ہوتا ہے؟وہ شخص جو اپنی بہنوں کی حفاظت کرنا چاہتا تھا کیوں کسی محافظ کا طلبگار ہوتا ہے؟ وہ شخص جو اپنی امیدوں کے سہارے زندہ ہے جو اپنے غریب اور بوڑھے ماں باپ کے لیے آرامدہ گھر بنانا چاہتا تھا تو آخر کیوں وہ کسی قبر کا محتاج ہے؟کیوں اجتماعی قبروں میں مدفون ہے؟کیوں اسکی مسخ شدہ لاش کسی کچرے کی ڈھیر میں ہے؟ کیا اس لیے کہ اسکی کچھ امیدیں تھی؟کیا اس لیے کہ ایک بلوچ ہوتے ہوہے بھی اس نے حسین خواب دیکھے؟کیا اس لیے کہ وہ اس ظالم معاشرے کے اندھے،گونگے اور بہرے لوگوں سے انصاف چاہتا تھا؟کیا بلوچ ہونے کی پاداش میں اسکی ساری امیدوں کو بکھیر دیا؟کیا اپنے خوابوں کی تعبیر کرنے کے جرم میں مارا گیا؟کیا یہ ہم بلوچوں کے لیے جرم ہے؟
یہ تاحد زیرِ نظر ہیں کہ ہم بلوچ بے گناہ ہیں۔ ہمارے ساتھ ناانصافی ہورہی ہی۔ہمارے اُمیدوں کے پرندوں کے پر توڑ دیے جارہیں ہیں۔ہمیں نااُمید بنا رہیں ہیں۔ ہم سے ہمارا حق چھین رہیں ہیں۔ہمیں ناانصافی کے دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔
ہم کوہی گناہ یا کوہی جرم نہیں کر رہیں ہیں بس ہم غریب علاقوں کے ان بے نواؤں اور بے سہاروں کے لیے عصّا بننا چاہتے ہیں۔ہم اندھے نوجوانوں کے لیے دید بننا چاہتے ہیں۔ہم گونگے بزرگوں کے لیے ایک زبان،ایک آواز بننا چاہتے ہیں۔ہم کچھ بننا چاہتے ہیں۔
خدارا ہم پر یہ ظلم نہ کرو!ہمارے ماں باپ کی اُمیدوں کو کفن میں نہ لپیٹوں،ان کی اُمیدوں کو خاک میں دفن نہ کرو،ان کی اُمیدوں کو قبر نما اندھیرے میں نہ دھکیلوں۔خدارا ہماری اُمیدوں پر ضرب نہ لگاؤ۔خدارا ہمیں شاہین کی طرح اونچی اُڑان بھرنے دو۔ہمیں پرواز کرنے دو۔
Bakhtawer Baloch is a student hailing from Awaran, Balochistan.