نصیر بلوچ
بلوچستان کی سیاست مورثی سیاستدانوں کی باہمی آویزشوں اور بداعتمادی سے درہم برہم ہورہا تھا۔ حقیقی سیاسی قیادت حکومت سے محروم ہوچکے تھے۔ ہر الیکشن میں بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں مداخلت بڑھتی جارہی تھی۔ عوام میں ایک مایوسی پھیل چکی تھی۔
اس بار بلدیاتی انتخابات کے نتائج حیران کن ہیں جہاں نا صرف عوامی ووٹ کو تقویت بخشی ہے بلکہ وہی حقیقی نمائندوں میں امید کی ایک کرن ابھر کر سامنے آئی ہے۔محض باتوں سے دل لبھانے کو فرض تصور کرنے والے رہنماوں کے لئے یہ انتخابات ایک سبق ہیں۔ گوادر کے 31 سیٹوں میں سے 26 حق دو تحریک کو ملے ہیں جو عوامی کی واضح فتح کا مظہر ہے۔
بلوچستان کے کہی علاقوں سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا جو شکوہ ہیں وہ کسی بھی طرح ریاست دشمن زمرے میں نہیں آتے تو ریاست کو چاہئے کہ ان کے محرومیوں کو دور کریں۔
معاشرے میں جب سیاسی محباحثے شروع ہوجائے تو وہاں شعوری بلوغت پروان چڑھ رہی ہوتی ہے جس سے بالاآخر ایک شعور یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کے حلقے آواران میں چالیس سالوں سے نافذ جاگیرداری نظام کے خلاف اتحادی جماعتوں کو بھر پور کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ آواران کو عبدالقدوس یرغمال بناچکے ہیں جہاں تعلیم ناپید ہے۔ لوگوں کو ذہنی غلام رکھا گیا تھا۔ آج بھی آواران میں 156 اسکول غیر فعال جبکہ 950 استاتذہ کی پوسٹیں خالی ہیں دوبارہ وزیراعلی ہوکر بھی اپنے حلقے کے تعلیم تباہ حال شعبے پر توجہ نہ دینے کو ہم کیا سمجھے؟ اسے تعلیم دشمن پالیسی ہی سمجھں گے نا۔
سامراجی ادوار لائبریری صرف بادشاہوں کے لئے مختص تھے کوئی عام عوام کو مطالعہ کی اجازت نہ تھی تاکہ وہ شعوری طور پر پختہ نہ ہوں وگر نہ پھر انکی اقتدار خطرے میں پڑجانا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے یہی پالیسی آواران میں اپنایا ہے۔
اپوزیشن کی سیاسی گہماگہمی اور سرگرمیوں سے ہر عام و خاص میں سیاسی دلچسپی پیدا ہوچکا ہے اور وہ حق و باطل میں فرق جان چکے ہیں۔ اس بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے یہ ثابت کردکھایا کہ مزید باپ پارٹی کی باتونی این جی او نہیں چلے گی۔ اب صرف وہی آگے آئے گا جو عملی کارکردگی دکھائے گا اب باتوں سے دل لبھانے کا وقت چلا گیا ہے۔
الیکشن سے قبل اور بعد میں مخلتف پارٹیوں کے نعروں کی گونج اٹھتی رہی ہے لیکن افسوس اس بات پر ہیکہ آواران کی اکثر تعلیم یافتہ طبقہ جو شاہد شعوریافتہ کہلانے کے مستحق نہیں وہ حق و باطل میں فرق جان کر یا انجابن کر بھی پسماندگی کی دوڑ میں سب سے آگے تھے۔
بلوچستان حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک پیش ہوتی ہی ناکام ہوگئی۔ جام کمال خان کا خیال تھا کہ وہ بطور پارٹی صدر اختیارات کا استعمال کرکے تحریک کو کامیاب بنائے گی وہ اخترمینگل کی حمایت حاصل کرکے تحریک کو کامیاب بناسکتے تھے لیکن وہ اپنے اختیارات کو لیکر کچھ زیادہ ہی پراعتماد تھا کہ انہیں یہ خیال تک نہیں آیا کہ اخترمینگل کی حمایت حاصل کئے بغیر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس ناکامی کے بعد وہ خاموش بیٹھنے والے نہیں اب انہیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد بھاری اکثریت سے پاس کرانا ہے تو انہیں بی این پی کی حمایت حاصل کرنی چاہئے۔
تحریک اعتماد کامیاب ہو یا ناکام اس سے بلوچستان کے عوام پر کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ صرف چہروں کی تبدیلوں سے حالاتیں نہیں بدلا کرتے۔ بلوچستان اس وقت آگ کی لپیٹ میں ہے، شیرانی جنگلات میں لگے آگ پر ابھی تک مکمل طور پر قابو نہیں پایا گیا ہے۔ اور بلوچستان حکومت ایک بیان دینے تک قاصر ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کو اردو بولنے میں دھکت ہوتی ہے وہ اس لئے میڈیا کا سامنا بہت کم ہی کرتے ہیں۔ ترجمان بلوچستان حکومت ڈھنگ کا جھوٹ بھی نہیں بول سکتی ڈیرہ بگٹی پیر کوہ پانی ناپید ہے لوگ مررہے ہیں وہ جیو میں بیٹھ کر کہتی ہیں ہم نے صورتحال قابو میں کرلیا ہے اور شیرانی جنگلات کی آگ کے شعلے کہیں دور دراز علاقوں تک مظہر ہے وہ کہتی ہیں ہم نے تو آگ پر قابو پالیا ہے۔ جھوٹ کے بھی سر پاؤ ہوتے ہیں لیکن فرح عظیم شاہ نے تو حد ہی کردی ہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے آواران پر چالیس سال حکمرانی کی ہے آواران کا حال دیکھ لیں وہ آج بھی پتھر کے زمانے کی عکاسی کرتا ہے ۔ جو شخص اپنے حلقے کو ترقی تو دور ترقی کی جانب گامزن نہیں کرسکا اس سے یہ توقع کرنے کہ وہ بلوچستان کو ترقی دیگا اس سے بڑی احمقانہ بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ 2022 کے سالانہ لیٹریسی رپورٹ میں آواران تعلیمی شرح میں سب سے آخری نمبر پر ہے۔ یہ سب کس کی دین ہے؟
پنجگور میں داد جان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف آج بھی احتجاج کی جارہی ہے لیکن معمول کی طرح ضلعی انتظامیہ غیر سنجیدہ اور بے بس ہے۔ اس پر اسد بلوچ کا کوئی خاطر خواہ بیان بھی سامنے نہیں آیا ہے۔