کوئٹہ:
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بلوچ طلبہ اور خواتین کی جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کی موجودہ لہر دراصل ان پالیسیوں کا تسلسل ہے جس کے تحت ہمیشہ بلوچستان میں انسانی حقوق اور آئین کو پامال کرکے جبر کی داستانیں رقم کیے جاچکے ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ پالیسی سازوں نے بلوچستان کے سیاسی معاملات کو ہمیشہ دہشت اور بندوق کے زور پر سنبھالنے کی کوشش کی ہے جس سے مذید نفرتوں نے جنم لے لیا ہے۔ بلوچستان میں ہرطبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر ملکی عدالتیں، انسانی حقوق کیادارے اور میڈیا مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں مذید کہا ہے کہ جامعہ کراچی واقعہ کے بعد ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ طلبا اور خواتین کے خلاف کریک ڈائون نہ صرف تشویشناک امر ہے بلکہ ایک واقع کو جواز بناکر بے گناہ طلبا اور خواتین کو اجتماعی سزا کے طور پر جبری لاپتہ کرنا ماورائے آئین ہے۔ رواں ماہ بلوچستان، کراچی اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے درجنوں بلوچ طلبا کو سی ٹی ڈی کی جانب سے لاپتہ کردیا گیا ہے۔ جبکہ آج کراچی میں بلوچ شاعرہ اور آرٹسٹ حبیبہ پیرجان کو ان کے گھر سے جبر ی گمشدگی کا نشانہ بنادیا گیا ہے۔
اسی ہفتہ ہوشاپ سے ایک بلوچ خاتون نورجہان کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتاری اور ان پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات کے خلاف علاقہ مکین شدید احتجاج پر ہیں۔ اس کے باجود اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایک اور بلوچ خاتون کو لاپتہ کردیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ خواتین اور طلبا کے ساتھ حالیہ کریک ڈائون انتہائی خطرناک اور خوفناک ہے جس کے خلاف ہر باشعور فرد سمیت آئینی اداروں کو آواز بلند کرنا چاہیے۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے لاپتہ طلباء و خواتین کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسائل کو اس طرح مزید ابدتر ابتری کا جانب دانستہ کوشش جاری رہا تو اس کے بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.