کوئٹہ —
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں گیارہ کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے کے خلاف مقتولین کے لواحقین بدستور سراپا احتجاج ہیں۔ لواحقین نے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کی یقین دہانی کے باوجود دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
کوئٹہ کے علاقے مغربی بائی پاس ہزار گنجی کے مقام پر ہزارہ کمیونٹی کا ہلاک افراد کی میتوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا تیسرے روز بھی جاری ہے۔
مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والے ایک کان کن محمد صادق کی ہمشیرہ ذکیہ ہزارہ بھی دھرنے میں شریک ہیں۔
ذکیہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مچھ واقعے میں ان کے خاندان کے پانچ افراد مارے گئے ہیں جن میں ایک اُن کے بھائی محمد صادق، ایک بھانجا اور تین چچازاد بھائی شامل ہیں۔
ذکیہ کے بقول، “میرے خاندان کے لوگ کوئلہ کان میں حلال روزی کمانے کی غرض سے گئے تھے۔ جن لوگوں نے ان غریب محنت کشوں کو بے دردی سے قتل کیا وہ لوگ انتہائی بزدل ہیں۔”
خیال رہے کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دہشت گردوں نے مچھ کے علاقے گیشتری کی کوئٹہ کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والے کئی مزدوروں کو اغوا کر لیا تھا۔
حکام کے مطابق دہشت گردوں نے شناخت کے بعد بلوچستان کی شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کو بے دردی سے قتل کیا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک وزیرِ اعظم عمران خان خود کوئٹہ آکر دھرنے کے شرکا کو مستقبل میں دہشت گردی کے ایسے واقعات کی روک تھام کی یقین دہانی نہ کرا دیں اس وقت تک احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر پیر کی شب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید دھرنا عمائدین سے مذاکرات کے لیے خصوصی طیارے سے کوئٹہ پہنچے۔
وزیرِ داخلہ نے لواحقین سے مذاکرات کے دوران دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی۔ تاہم یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔
دوسری جانب افغانستان کی وزات خارجہ کی جانب جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مچھ واقعے میں ہلاک ہونے والے 11 کان کنوں میں سے سات کا تعلق افغانستان سے ہے۔
افغان وزاتِ خارجہ اس واقعے کے حوالے سے اسلام آباد میں افغان سفارت خانےاور کوئٹہ میں افغان قونصلیٹ کے ساتھ رابطے میں ہے۔
افغان حکومت نے پاکستان کی حکومت کو واقعے کی تحقیقات میں تعاون کی پیش کش بھی کی ہے۔
Source: VOA URDU