کوئٹہ:
بی ایس او شال زون کا ورکنگ باڈی کا اجلاس شال زون کے آرگنائزر نذیر بلوچ منعقد ہوا۔ اجلاس کے مہمان خاص بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل ماما عظیم بلوچ جبکہ اعزازی مہمانان مرکزی جونیئر جوائنٹ سیکرٹری عاطف شانے بلوچ، کمیٹی ممبران صمند بلوچ اور کریم شمبے بلوچ تھے۔ اجلاس میں زونل کابینہ کے اراکین شال زون کے یو او بی یونٹ، ڈگری کالج یونٹ اور پولی ٹیکنیک کالج یونٹ کے عہدیداران نے شرکت کی۔
اجلاس کا آغاز شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا۔ اجلاس میں شال زون میں تنظیمی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ مختلف ایجنڈے جن میں سیاسی صورتحال ، تنظیم کاری، تنقیدی نشست اور آئندہ کے ایجنڈے زیر بحث آئے۔
اجلاس میں مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں عوامی رائے اور پر امن اور جمہوری آوازوں کو دبانے کی کوششوں میں مزید تیزی لائی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں کے تعلیمی ماحول کو بگاڑنے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو ایسے افراد کے حوالے کیا گیا ہے جنہیں نہ بلوچستان سے لگاؤ ہے نہ ہی وہ تعلیم یافتہ بلوچستان چاہتے ہیں۔ ریاست اور حکومتی ادارے بلوچستان میں تعلیم و شعوری چراغ بجانے میں لگے ہوئے ہیں۔
جس کا واضع ثبوت سریاب روڈ فیض آباد کے قریب واقع لائبریری کو حکومتی حمایت یافتہ غیر منتخب سیاسی رہنما کی جانب سے قبضہ کرنا ہے جہاں دو سال سے زاہد عرصہ سے لائبریری کا بلڈنگ مکمل ہوچکا ہے جسکو علاقائی غیر منتخب سیاسی رہنما نے فعال کرنے کے بجائے کراٹے کلب کے حوالے کردیا تاکہ سریاب کے عوام اور کتاب کا رشتہ ختم کیا جا سکے۔ ایک طرف ریاست تعلیم و شعور کے چراغ بجانے کیلئے اپنی پوری طاقت لگایا ہوا ہے۔
تو دوسری جانب ریاستی مشینری غیر سیاسی افراد پیدا کرنے کی کوشش میں لگی ہے جسکا واضح مقصد عوام کو ان کے حقوق کے بارے میں شعور پیدا کرنے والے تنظیموں کے راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلباء سیاست، ماحول اور سیاسی نظام کا پیداوار ہے۔
طلباء سیاست کا مقصد معاشرے کے بیج یعنی ’’طلبہ‘‘ کو مناسب توانائی فراہم کر کے انہیں معاشرے کا اثاثہ بنانا ہے۔ ایک حقیقی نظریہ اور سیاسی خیالات رکھنے والا طالب علم سماج کو بہتر سمجھتا ہے اور جب نوجوان سماج کو سمجھ سکیں گے تو سماج کی خدمت بہتر انداز میں کیا جا سکے گا۔ 55 سال قبل سیاسی فکر سے لیس ہمارے قومی ہیروز نے 26 نومبر 1967 میں بی ایس او کا بنیاد رکھا۔
بی ایس او اپنی قیام سے لیکر آج تک بلوچ قوم پرستی کی سیاست میں ایک تاریخ ساز ادارہ رہا ہے بی ایس او نے ہر بلوچ نوجوان کی فکری تربیت کے ساتھ ساتھ انکی کردار سازی بھی کی ہے یہ بی ایس او کی مرہون منت ہے کہ آج ہم اپنی حقوق کی دفاع اور بالادست قوتوں سے سوال کرنے کی جرت رکھتے ہیں بی ایس او کی نظریہ، فکر اور بی ایس او کی تربیت نے بلوچ نوجوانوں کا سر بلند کیا ہے۔