بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ جامعہ کراچی یونٹ کی جانب سے ہفتہ وار اسٹڈی سرکل بعنوان (یوکرین مابین روس جنگی تنازعہ ) منعقد ہوا۔ جن کے اسپیکر ڈاکٹر لطیف تھے۔ بی ایس ایف کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری جی آر بلوچ مہمان خاص اور مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل جاوید بلوچ نے بطور اعزازی مہمان شرکت کی۔
ڈاکٹر لطیف لعل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سوویت یونین(USSR) جو ایک سوشلسٹ اتحاد تھا کمیونسٹ روس کی قیادت میں بنا تھا امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں کو سویت یونین سے نظریاتی اختلافات تھے امریکہ جو کہ لبرل ، جہوریت پر یقین رکھتا ہے اور سویت یونین کے اتحادی جو کہ کمیونسٹ نظریے کو ماننے والے تھے ۔ پھر یورپی ملکوں نے امریکہ کی 1949 میں نیٹو اتحاد بنادیا جس کا بنیادی مقصد تھا سویت یونین نظریاتی و فوجی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی بنایا جائے ۔
اُنہوں نے اندرونی سیاست اور تاریخی پس منظر پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ 1991 میں سویت یونین ٹوٹنے کے بعد 14 نئی ریاست قائم ہوئی سویت یونین کے ٹوٹنے سے قبل یوکرین روس کا حصہ تھا روس کے زخموں ںپر نمک تب چھڑا جب 1997 کو نیٹو یوکرین کمیشن بنا۔ یہ کمیشن اسلئے بنا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کریں چونکہ روس کبھی نہیں چاہتا کے یوکرین نیٹو کا حصہ بنے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ یوکرین روس کےساتھ لمبا بارڈر شیئر کرتا ہے اور روس اس کو اپنے لئے سیکورٹی خطرہ محسوس کرتا ہے ۔
1 مئی 2004 میں 10 سابقہ کمیونسٹ ملک یوروپین یونین کا حصہ بنے اس میں ، مالٹا ۔ہینگری،پولینڈ ، اسٹونیا ۔ Letiva , linthuania شامل ہیں ۔اس میں تیں بالٹک اسٹیٹ ہیں اسلئے انکو بالٹک اسٹیٹ کہتے ہیں کیونکہ یہ روس کے ساتھ بارڈر شیر کرتے ہیں۔ روس کو مغربی یورپی ملکوں سے خطرہ ے، اگر یوکرین نیٹو میں جاتا تو روس مکمل طور پر یورپی ملکوں میں بند ہو جائے گا۔ وہ کسی صورت میں نہیں چاہتا یوکرین نیٹو کا حصہ بنے۔لیکن اس میں شددت ہمیں تب دیکھنے کو ملتا ہے جب 2014 یوکریں کے اندر اورینج (Orange revolution )انقلاب آیا 2010 کے صدارتی انتخابات میں روسی زبان بولنے والا یانوکووچ مرکزی الیکشن کمیشن کے بعد یوکرائن کے صدر کی حیثیت منتحب ہوئے یانکووچ کو چار سال بعد فروری 2014 کے بعد اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو کے حامی صدر کا تختہ الٹنے کے بعد روس نے یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے روس کی سرحد پر دونیتسک اور لوہانسک کے مشرقی صنعتی علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ وہاں باغیوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور نئی ’عوامی جمہوریہ‘ کا اعلان کر دیا۔سیواستوپول ( Sevastopol ) اسٹرجیک نیول بیس اسے نقصاں پہنچایا اور وہاں اپنی فوج موبیلائز کیا ۔وہاں سے اسکی شروعات ہوتی ہے ابھی کہا جاتا ہے ایک لاکھ فوج وہاں موبلائز ہیں۔ اس کے بعد سے جاری تنازعے میں اب تک 14 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جب سنہ 2014 میں روس نے یوکرین میں دراندازی کی تھی تو روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے مشرقی یوکرین میں بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور اس وقت سے وہ یوکرینی فوج سے برسرِپیکار ہیں۔ اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ جسے ’منسک امن معاہدہ‘ کہا جاتا ہے طے پایا لیکن یہ تنازع جاری رہا اور اب صدر پیوٹن نے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ دو خطوں کو بطور آزاد علاقے تسلیم کرنے کے بعد وہاں روسی دستے بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ 16 دسمبر 2021 نیٹو کے چیف اور یوکریں کے صدر کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی اس کے بعد روس کے صدر نے امریکہ سیمت دیگر یورپی ملکوں کے صدروں سے رابطہ کیا اور کہا کہ یوکرین کو کسی بھی صورت نیٹو کا حصہ نہ بنائے جائے اگر یوکرین کو نیٹو کا حصہ بنا دیا گیا تب روس اس پر حملہ کریگا ۔سنگت ڈاکٹر لطیف لعل نے مزید جنگ کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ cause .resionIdeological and culture resion.جو روسی امپائر ہے وہ بنیادی طور پر یوکرین سے emerge ہوا ہے ۔یوکرین کو پہلے اسے اوکریں کہا جاتا تھا روسی اسے ماں کا درجہ دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں انکی جو امپائر تھی وہ اسی سیولازیش میں Emerge ہوئے ہیں ۔
اٹھویں صدی کے اندر Kevin rus کی نام سے کیئف( یوکرین کے کیپٹل ہے) وہاں س امپائر کی بنیاد رجھی گئ تھی۔ اس کے بعد روسی سمجھتے ہیں یوکرین انکی وراثتی کلچر اور تاریخی سیولازیشن کررہےہیں۔ لیکن یوکرین نے کبھی بھی روس کے Domince کو نہیں مانا یوکرین یہ سمجھتے ہیں انکی مرہون منت سے روس بچا ہے۔
لیکچر کے آخر میں ممبروں نے مُختلف سوالات پوچھے جن کا تسلی بخش جوابات دئے گئے اور اسٹڈی سرکل کا اختتام کیا گیا۔