پاکستان کی پارلیمان نے بدھ کے روز اپنے ایک مشترکہ اجلاس میں نگراں حکومت کو چند اضافی اختیارات دینے پر مبنی الیکشن ترمیمی بِل 2023 کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔
الیکشن ترمیمی بِل 2023 درحقیقت الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم پر مبنی ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات کی 54 شقوں کی مرحلہ اور منظوری دی گئی۔
نگران حکومت کے اختیارات سے متعلق الیکشن ایکٹ کی شق 230 کثرت رائے سے منظورکی گئی جبکہ اس شق پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی، جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق اور تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا۔
الیکشن ایکٹ کی شق 230 کے تحت نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے، مجوزہ ترمیم میں مزید ترمیم کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ نگران حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی اور فیصلے لے سکے گی۔
الیکشن ایکٹ میں جو دیگر ترامیم کی گئی ہیں ان کے تحت پریزائڈنگ افسر انتخابی نتائج ایک مخصوص وقت میں اور فوری طور پر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ آفیسر کو بھیجنے کا پابند ہو گا۔
ترمیم کے تحت پریزائیڈنگ افسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہو گا، اور اس میں تاخیر کی صورت میں تحریری طور پر ٹھوس وجہ بتانے کا پابند ہو گا۔
ترمیمی بل کے مطابق حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے کی جائیں گی۔
بل کے تحت پولنگ ڈے سے پانچ روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں کیاجا سکے گا جبکہ امیدوار قومی اسمبلی کی نشست ایک کروڑ تک جبکہ صوبائی نشست کی انتخابی مہم پر 40 لاکھ تک خرچ کر سکیں گے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کی شق وار منظوری کے دوران ایوان کو بتایا کہ انتخابی اصلاحات بل میں کوئی نئی تبدیلی نہیں کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو معاہدے وفاقی حکومت نے پہلے سے طے کر لیے ہیں ان پر نگران حکومت کو کام کرنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سینیٹر رضا ربانی نے بھی آرٹیکل 230 پر اعتراض اٹھایا تھا۔
دوسری جانب اس بل پر شق وار منظوری کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اعتراض اٹھایا کہ ’ہم غلامی میں اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ آئی ایم ایف کے لیے اپنے الیکشن کے قوانین بھی بدل رہے ہیں۔‘
اس سے قبل پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نگران حکومت کو اضافی اختیار دینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ نگران حکومت کو اختیار دینے والے خواجہ آصف خود نگران حکومت کے اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے۔ اگر اس شق میں ترمیم ختم نہ کی گئی تو سپریم کورٹ اڑا دے گی۔‘
اس بل کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سات اگست دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.