کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان ہمیشہ سیاسی مقاصد کے حصول اور وسائل کے لوٹ مار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے باپ پارٹی بنائی گئی بلوچستان عوامی پارٹی کا نام پہلے پاکستان عوامی پارٹی تجویز کیا گیا لیکن پھر اس کو بنانے والوں کو احساس ہوا کہ یہ تو پاپ کہلائی گی اس لئے پھر اسکو باپ بنا دیا۔
بلوچستان میں اس پارٹی کو ووٹ فرشتوں نے دیا اور الیکشن میں دھاندلی سے جتوایا صوبوں کی سطح پر پارٹیاں قوم پرستانہ ہوتی ہے لیکن بی اے پی میں تو قوم پرستی کی آداب بھی نہیں ہے ،بلوچستان کے تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ چلاتی ہے حتی کہ یہاں کی حکومت سازی کا اختیار بھی وفاق کے پاس نہیں.
،لاپتہ افراد کے معاملے پر جب بھی میری ملاقات عمران خان اور ان کے منسٹرز سے ہوتی تھی تو وہ مجھے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے طرف بھیج دیتے تھے ہم عمران خان کی حکومت میں اسلئے شامل ہوئے کیونکہ ہم لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے تھے۔ میں نے5128 لاپتہ لوگوں کی لسٹ پارلیمنٹ میں جمع کروائی۔ ان میں سے 450 کے قریب بازیاب ہوئے لیکن 1500 اور اٹھائے گئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اسلئے ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز سائوتھ ایشاء پریس کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ایک زمانہ میں صرف پی ٹی وی یا محدود اخبارات کے ذریعے خبریں ملتی تھی لیکن جدید دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچستان کے حالات سے سب باخبر ہے ،بلوچستان کی بدحالی میں نہ صرف معاشی صورتحال بلکہ سیاسی حالات بھی شامل ہیں۔
اوریہ سلسلہ آج کا نہیں بلکہ 1947 سے چلا آرہا ہے ہر آنے والے حکمران نے بلوچستان کو اہمیت دینے کی بجائے اپنے مقاصد حاصل کی مقاصد کا مطلب بلوچستان کے وسائل لوٹے اور استعمال کئے لیکن مقامی باشندہ کو مسلمان اپنی جگہ لیکن انسان بھی نہیں سمجھا گیا یہ ایک عرصے سے لاوا پک رہا ہے اور لاوا اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ سکولوں میں پاکستان کا ترانا بھی لوگ بجانا پسند نہیں کرتے تھے۔
موجودہ حکومت ہو یا اس سے پہلے کی حکومت بارہابلوچستان کے مسئلوں پر توجہ دلانے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں چاہے جمہوری حکومت ہو یا آمروں کی حکومت ان کی جانب سے بلوچستان کو نظرانداز کیاگیاہے سیاست کا رواج ہے کہ ہر کوئی اپنے مقصد کیلئے سیٹوں کواستعمال کرتاہے ہم نے حکومت سے بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے معاہدہ کیا جن میں پہلا مطالبہ لاپتہ افراد، افغان مہاجرین کی وطن واپسی ،معدنیات کو بلوچستان کے حوالے کرنا۔
گوادر میں مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی سمیت دیگر مسائل حکومت کے سامنے رکھے ، ہم نے اس وقت واضح کیاتھا کہ چھ نکات سے بلوچستان کے مسائل کا حل ایک راستہ ہے اور مختلف اوقات میں ہم وزیراعظم سے لیکر کمیٹی ممبران تک کو معاہدے کی یقین دہانی کراتے رہے ،انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی میں پہلی لسٹ جو مہیا کی گئی تھی۔
میں 5 ہزار 128 کے قریب لاپتہ افراد لوگوں کی تفصیل تھی جن میں سے ڈھائی سال کے عرصے میں ساڑھے چار سو لوگ بازیاب ہوگئے تھے لیکن ان ڈھائی سالوں میں 15کے قریب اور بھی لوگ لاپتہ ہوگئے بازیابی کا سلسلہ بند لیکن اٹھانے کا سلسلہ جاری تھا ،حکمرانوں کی طرف سے مثبت رسپانس نہیں ملا ٹرخانے کیلئے کبھی دو تو کبھی چار لوگ چھوڑ دئیے جاتے تھے۔
جہاں ہمارے ووٹوں کی ضرورت تھی تو پھر لوگوں کو چھوڑ دیاجاتا تھا، الیکشن کمپین میں کسی نے ہم سے سڑکوں اور ترقی کامطالبہ نہیں کیا ہر علاقہ انڈر ڈویلپ ہے لیکن لوگ اپنے بچوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے تھے اس لئے ہم نے یہ مطالبہ سر فہرست رکھا ،حکومت کی جانب سے ٹرخانے پر ہم نے حکومت کو خیرا ٓباد کہہ دیا،سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین مسئلہ ہے ۔
عمران خان کو چھوٹے معاملات میں اختیارات حاصل نہیں ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف ڈائیورٹ کرتے اور کہتے کہ آئیں ہم آپ کی آرمی چیف ،ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کراتے ہیں اور یہ مسئلہ حل کرتے ہیں ،ان کے باڈی لینگویج اور ان کے عمل سے ثابت ہوگیا تھاکہ وہ اختیارات کے مالک تھے اور نہ ان سے پہلے بلوچستان کے معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی کو اختیار دیا گیا ہے۔
چاہے وہ لاپتہ افراد ہو سی پیک ہو یا کوئی اور مسئلہ ،بلوچستان میں حکومت سازی کا اختیار بھی وفاق کو حاصل نہیں بلکہ اسیٹبلشمنٹ لیتی ہے, انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں دنوں میں نہیں بنتی بلکہ طویل جدوجہد کے بعد جا کر بنتی ہے اور پھر الیکشن کے دوران منشور عوام میں لے جایا جاتا ہے, باپ پارٹی الیکشن سے دوتین ماہ قبل بنی اور بناتے وقت فیصلہ بھی نہیں ہو پارہا تھا کہ اس کا نام کیا رکھا جائے۔
بلوچستان عوامی پارٹی جو نام رکھا جاتا ہے وہ قوم ہمیشہ قوم پرست پارٹیاں ہوتی ہے اس کی کوئی آدا بھی قوم پرستانہ نہیں لگتی یہ جلد بازی میں نام رکھا گیا ہے اصل میں اس کا نام پاکستان عوامی پارٹی رکھا جارہا تھا نام تجویز کیا گیا تھا لیکن پھر انہیں یاد آیا کہ یہ تو پاپ بن جائے گا اور پھر پاپ سے ڈائیورٹ کرکے باپ بنا دیا اب پتہ نہیں کس کے باپ کا یہ پاپ ہے یہ بنانے والے لوگ جانتے ہیں ۔
میں جب 25 سال کا تھا اور آج میں 65 کا ہوں تو اب تک ہم اپنی پارٹی کو مکمل نہیں بنا پارہے تو یہ کوئی جادو کی چھڑی تھی شاید یہ پہلی پارٹی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی پارٹیاں بنتی رہی ہیں ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی اکثریت کو ختم کرنے کیلئے باپ پارٹی بنائی گئی ہے انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں مخصوص نشست کے ساتھ ہماری 4 نشستیں ہیں قومی اسمبلی کی ایک نشست جس پارٹی کو جتوائی گئی ۔
اس ممبر سے الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ آپ نے ووٹ کاسٹ کیا تو انہوں نے کہا نہیں پوچھا کہ کیوں نہیں تو انہوں نے کہا کہ حالات خراب تھے اب جب حالات خراب تھے اور اسی امیدوار کو اسی پولنگ سے 12 سو ووٹ ملتے ہیں شاید فرشتوں نے ہی ان کیلئے ووٹ ڈالے ہونگے جہاں امیدوار خود نہیں جاسکتا تھا یہ پارٹی قومی اسمبلی ،سینیٹ اور صوبائی سطح پر مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
Source: Daily Azadi Quetta
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.