:اسلام آباد
منگل کو صحافی مدثر نارو اور اسلام آباد کی یونیورسٹی سے دو طلبہ کے لاپتہ ہونے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیکر کہا کہ لوگوں کو جس نے بھی لاپتہ کیا وہ حکومتی منشا کے بغیر نہیں ہو سکتا، اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت کسی کے خلاف کارروائی تو کرتی،چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست مانتی ہے کہ دو بچے جبری طور پر لاپتہ ہیں تو انہیں بازیاب کس نے کرانا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئی اٹارنی جنرل کو کہا کہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ تاثر ختم کریں کہ کوئی کچھ نہیں کر رہا، جن دو بچوں کا حکومت نے مانا کہ جبری لاپتہ ہیں ان ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیں۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو عدالت آ کر بیان دیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔اُنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ یہاں سابق چیف ایگزیکٹو لوگوں کے اٹھائے جانے کا فخر سے کتابیں لکھ کر کریڈٹ لیتے ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تاثر جب یہ ہو کہ ریاست اغوا کر رہی ہے تو پھر کون ذمہ دار ہوگا
سماعت کے دوران بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے لاپتہ دو طالب علم بھائیوں کے والد عدالت میں کھڑے ہوئے کہا کہ کالی وردی والے لوگوں نے میرے بیٹوں کو اٹھایا، لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، کمیشن نے مکمل کارروائی کر کے اسے جبری گمشدگی کا ہی کیس قرار دیا ہے مگر اب تک کچھ نہ ہوسکا۔
اس پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب پھر بتائیں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہوئی؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن کا کام صرف ایف آئی آر درج کرانا رہ گیا کیا؟ دارالحکومت سے دن دیہاڑے سب کے سامنے بچوں کو اٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایس ای سی پی کا افسر اٹھایا گیا اس کی تحقیقات کا کیا بنا؟ ایک صحافی کو اٹھایا گیا اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا کیا بنا؟ کچھ بھی نہیں بنا ناں؟ یہی بے حسی ہے،اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یونیفارم میں صحافی کو اٹھانے والوں کی فوٹیج موجود ہے، اگر انہیں بھی پکڑا نہیں گیا حکومت اس عدالت کو جواب دہ ہے کہ ایک لاپتہ شخص واپس آ کر کہتا ہے شمالی علاقہ جات گیا تھا، اٹارنی جنرل صاحب کیا یہ ماننے والی بات ہے؟
اس موقع پر انسانی حقوق کی وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا کہ ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہی ہے کہ لوگوں کو بازیاب کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انگلی وفاقی حکومت اور چیف ایگزیکٹو پر ہی جا کر ٹھہرتی ہے، مسلح افواج بھی کوئی کام حکومتی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتیں۔
لاپتہ افراد کیسز کی پیروی کرنے والے کرنل (ر) انعام الرحیم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ لاپتہ افراد کے کل کیسز 8279 ہیں یہ پریس میں بھی رپورٹ ہو چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے ان دو بھائیوں کا ہی نہیں بلکہ حزب التحریر کے ساتھ تعلق کے الزام میں غائب ہونے والے نوید بٹ اور عمران خان نامی شہریوں کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کیے لیکن آج تک ان کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہیں یہ ان کی پالیسی ہی نہ رہی ہو، ان میں سے کسی نے لاپتہ افراد کیس میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ اُنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ اس نے بندے اغوا کرائے، وہ چیف ایگزیکٹو اشتہاری ہے۔
لاپتہ افراد کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم نے کہا کہ حراستی مراکز کا دورہ کرایا جائے تو لوگ بازیاب ہو سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیوں پر موثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل تین ہفتوں میں مطمئن کریں کہ حکومت کی طرف سے کیا اقدامات کیے گئے۔