برسوں سے جاری تشدد اور تنازعات کو معاہدے کے ذریعے ختم کرنے کے لیے حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جاری مذاکرات میں ایک بڑا قبائلی جرگہ بھی شرکت کرے گا۔ قبائلی جرگے سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا کے سابق گورنر شوکت اللہ خان کے مطابق قبائلی روایات کی نظر میں جرگے کا اہم کردار ہے جس کا دونوں طرف سے احترام کیا جاتا ہے، جبکہ ہم پرامید ہیں کہ ہماری کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے شوکت اللہ خان نے کہا کہ 50 سے زائد افراد اس جرگے کا حصہ ہیں جس میں ایک وفاقی وزیر، خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندگان اور قبائلی عمائدین شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری جن کا تعلق قبائلی ضلع کرم سے ہے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی اس جرگے کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے جرگہ بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان کے لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا جس میں خصوصی طور پر ملاکنڈ ڈویژن سے قبائلی عمائدین شامل ہوتے تھے، لیکن اس بار خیبر کے قبائلی عمائدین شاہ جی گل آفریدی کو بھی اس جرگے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کابل سے ایک پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ کچھ پیش رفت کے ساتھ مذاکرات سنجیدہ مراحل میں داخل ہو چکے ہیں، تاہم انہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس مرحلے میں مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا۔ ذرائع کے مطابق جرگہ بدھ کی روز کابل پہنچا تھا۔ کابل روانگی سے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما اخوندزادہ چٹان نے، جو جرگے کا بھی حصہ ہیں، اسلام آباد ایئرپورٹ سے تصاویر پوسٹ کیں اور پشتو میں لکھا کہ کابل روانہ ہورہے ہیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.