افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکمران طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین پر عائد نئی پابندیوں کو واپس لیں۔
افغانستان کے حکمران طالبان جہاں خواتین پر آئے دن نئی پابندیاں عائد کر رہے ہیں، وہیں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اسی پس منظر میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ بینیٹ نے ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جمعرات کے روز انہوں نے طالبان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے حکمران، جس بڑے پیمانے پر زیادتیاں ہو رہی ہیں اس کی شدت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے مطابق بہت سی زیادتیاں خود ان کے نام پر ہو رہی ہیں، جن پر ان زیادتیوں کا ازالہ کرنے اور پوری آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے۔
گزشتہ ماہ ہی بینیٹ کو افغانستان کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے پہلی بار افغانستان کا اپنا 11 روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔ اس کے اختتام پر نامہ نگاروں سے بات چیت میں انہوں نے کہا، “میں نے ملک بھر میں انسانی حقوق کی تنزلی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، اور خواتین کو عوامی زندگی سے پوری طرح سے مٹانے کا معاملہ تو خاص طور پر تشویشناک ہے۔”
ان کا کہنا تھا، “میں حکام پر زور دیتا ہوں کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق ان چیلنجوں کو تسلیم کریں جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں اور اپنے قول و فعل کے درمیان فرق کو ختم کریں۔”
بینیٹ کا دورہ افغانستان ایک ایسے وقت ہوا، جب طالبان نے چند روز قبل ہی لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے لباس اور ان کے باہر نکلنے سے متعلق سخت ہدایات جاری کی تھیں۔ ان کی روانگی سے قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس معاملے پر اپنا ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے طالبان سے افغان لڑکیوں اور خواتین کے انسانی حقوق اور ان کی آزادی کو محدود کرنے والی پالیسیوں کو، “فوری طور پر واپس لینے” کا مطالبہ کیا تھا۔
حالیہ ہفتوں میں طالبان نے اس طرح کے احکامات جاری کیے جن میں خواتین کو اپنی آنکھوں کے علاوہ اپنے چہرے کو ڈھانپنے کا پابند کیا گیا۔ ٹی وی پر آنے والی خواتین رپورٹرز پر بھی ایسی ہی پابندیاں لگا دی گئیں اور یہ حکم صادر کر دیا گيا کہ اس پر عمل نہ کرنے والے خواتین کے قریبی مرد رشتہ داروں کو سزا دی جائے گی۔
طالبان نے چھٹی جماعت کے بعد افغان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی پہلے سے ہی عائد کر رکھی ہے۔ خواتین سے متعلق طالبان کے یہ تمام فرمان اور پالیسیاں تقریبا اسی طرح کی ہیں جب سن 1996 سے 2001 کے درمیان کے اپنے پہلے دور اقتدار میں انہوں نے نافذ کی تھیں۔
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.