اسلام آباد:
یہ وارننگ قومی اسمبلی کے ایک ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے جو جمعرات دو ستمبر کو پیمرا کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اس بل کے حوالے سے کچھ اہم نکات کا تذکرہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد میڈیا کارکنان کے حقوق کا دفاع کرنا اور جعلی خبروں کی روک تھام ہے۔ جبکہ اتھارٹی کے قیام کے بعد بہت سارے اداروں کو ضم کر دیا جائے گا اور میڈیا سے متعلق کئی معاملات کو احسن طریقے سے نمٹایا جائے گا۔
تاہم صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ حکومت بل اس لئے لا رہی ہے تاکہ اختلافی آوازوں کو دبایا جاسکے اور ملک میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جا سکے، جس کی صحافتی برادری بھرپور مزاحمت کرے گی۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے بھی حکومت پر یہ بات واضح کی ہے کہ وہ اس بل کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کریں گے اور ہر محاذ پر مخالفت کریں گے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “اس بل کا مقصد حکومتی کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس بل کے ذریعے اخبارات کی کلیکشن کو مشکل بنایا جارہا ہے، صحافیوں کو سزا دی جا رہی ہے اور یوٹیوب چینلز کے قیام کو بھی نا ممکن بنایا جا رہا ہے۔”
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے رکن فیڈرل ایکٹ کمیٹی ناصرملک کا کہنا ہے کہ یہ بل دراصل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اختراع ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “فواد چودھری صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ بل بس خیال کی حد تک ہے اور یہ کہ اس پر مختلف لوگوں سے مشورہ کیا جائے گا لیکن میری اطلاعات یہ ہیں کہ اس بل کو باقاعدہ وزارت قانون کی منظوری کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور حکومت ہر حالت میں اسے پاس کرنے کی کوشش کرے گی۔‘‘
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.