الطاف حسین اور مہاجر سیاست کا میں مخالف رہا ہوں جسے ایم کیو ایم کے لوگ بھی جانتے ہیں، اس لئے کہ الطاف حسین نے ملٹری کے زیر سایہ اپنی مخصوص زاویہ کی سیاست کا آغاز کیا جس نے نتیجے میں سندھ لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ سوائے خون خرابے کے انکی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مگر ان سب سے ہٹ کر الطاف حسین کو سیاست سے باہر کردینے یا بقول عسکری طرز گفتگو کے اس کو “دفن” کردینے کے باوجود ہماری ریاست آج بھی الطاف حسین سے اتنی ہی خوفزدہ ہے جتنی وہ اسکی موجودگی سے تھی پاکستانی ریاست اپنے ہی پیدا کردہ فرینکنسٹین سے بالکل اسی طرح خوفزدہ ہے جس طرح اس کے موجد رہے۔ الطاف حسین کے نئے اور پرجوش نعروں نے جن میں سندھو دیش، بلوچستان اور پختونخواہ کے علیحدہ علیحدہ وطن یا پاکستان سے مکمل آزادی شامل ہیں شاید اسی سبب ریاست کسی خوف میں مبتلا ہوگئی ہے۔
اسی خوف کا اظہار پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 30 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران اپنے مذموم ارادوں کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے برطانوی وزیراعظم کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ “کہیں کسی نے یہ بات سنی ہو کہ آپکا اتحادی آپ کا اتحادی ہی آپ پر بمباری کررہا ہو۔ اگر یہ صحیح ہیں تو کیا ہم 30 سال سے لندن میں بیٹھے اپنے دہشت گرد پر حملہ کرسکتے ہیں، ہم اسے ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟
وزیراعظم کا یہ بیان بہت ہی حیران کن ہے کہ عمران خان تقریر کررہے ہیں افغانستان پر، اور اس حوالے سے امریکہ کو اڈے دئیے جانے پر بات ہورہی ہے لیکن اس کے بیچ میں الطاف حسین کہاں سے آگیا؟ یہ کون سا خوف ہے، جو کچھ چھپائے نہیں چھپتا۔ ہاں! البتہ پاکستان میں تبدیل ہوتی ہوئی سیاست جس میں قوم پرستانہ سیاست اور قومی حقوق سرفہرست ہیں وزیراعظم صاحب کی طرف سے ڈرون حملوں کا عندیہ ملک کی اندرونی سیاست میں خطرناک ارادوں کا اظہار ہے۔ گو کہ انہوں نے الطاف حسین اور برطانیہ کے حوالے سے کی ہے لیکن وہ یہ بھی واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ جہاں چاہیں ڈرون کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر مختلف صوبوں میں چلنے والی تحریکوں کا جائزہ لیں تو یہ بآسانی نتیجہ نکلتا ہے کہ بلوچستان، سندھ اور پختونخواہ میں حقوق کیلئے چلنے والی تحریکیں اب فوج اور قانون نافذ کرنے والوں کے بس میں نہیں کہ ان پر قابو پایا جاسکے۔
بلوچستان میں مسلح جدوجہد جاری ہے جس میں بلوچ عوام خاص کر نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جہاں لوگوں کو غائب کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، دور دراز کے علاقوں میں پانی کیلئے کھدائی شروع کرو تو انسانی ہڈیاں ملتی ہیں، جابجا اجتماعی قبریں پائی جاتی ہیں۔ وہاں سے آنے والی اطلاعات کے مطابق روزانہ کم سے کم دو فوجیوں کی ہلاکتوں کی خبریں مین میڈیا میں آتی ہیں، فوجی قافلوں پر حملے ہوتے ہیں اور آزادی کے پرجوش کارکن ہتھیار چھین کر فرار ہوجاتے ہیں۔ وہاں فوج اور عمران خان کے ارادوں میں اب ڈرون حملوں ڈرون حملوں سے قابو پانے کے واضح اشارے ملتے ہیں
یہی حال پختون خواہ خاص کر سابقہ فاٹا کا ہے جہاں فوج سے سخت نفرت کی جاتی ہے، جہاں کے مقبول نعرے “یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔ یہ جو نامعلوم ہے سب کو معلوم ہے”, اگر پانچ افراد کہیں جمع ہوں یا کوئی بھی جھگڑا ہو یہ نعرے ضرور لگتے ہیں اگر کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو بھی ایسے ہی نعرے لگتے ہیں۔ پورے پختونخواہ میں ہر پانچویں گھر سے ایک نہ ایک فرد لاپتہ ہے۔ پختون تحفظ موومنٹ وہاں کی سب سے مقبول جماعت ہے جس کے خلاف ملٹری، اسلام آباد اور طالبان ایک ہو کر پختونوں کی قومی تحریک کو کچلنے پر متحد ہیں، سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ اس تحریک میں پختون خواتین سب سے زیادہ آگے آگے ہیں۔ گریٹر پختونخواہ کے نعروں کو اب ڈرون سے روکنے کے اشارے مل رہے جس کے لئے یہ بہانے ہوں گے کہ افغانستان سے حملے کئے گئے ہیں۔
سندھ میں بحریہ ٹاون کیخلاف تحریک نے پورے سندھیوں کو متحد کردیا ہے، الطاف حسین کو “دفن” کردئیے جانے کے بعد اردو بولنے والی آبادی اب فوج کی مدح سرائی سے باہر آگئی ہے وہ بھی سندھو دیش کے فلسفے کو نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں تاہم وہ ابھی بھی کراچی ہی کو اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے خلاف احتجاج کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ سندھ کے باشندے اپنی سرزمین پر فوج اور انکے حواریوں یا گماشتوں کو سرزمین دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اندرون سندھ فوجی ٹرکوں کے گذرنے پر وردیوں کیخلاف زوردار نعرے لگتے ہیں، فوجی وردیوں میں اب مٹر گشت نہیں کرتے، فوجی اپنی چھاؤنیوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملٹری کے کاروبار اور فیکٹریوں پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں، ان کی حفاظت کے لئے سب حکومت کے پاس ڈرون آگئے ہیں۔
پنجاب میں عوام دوست حلقوں کی طرف سے قومی تحریکوں کی حمایت نے ایوانوں میں کھلبلی مچادی ہے جو مظلوم قوموں کیلئے حوصلے کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول کے بعد اب عمران خان اور عسکری قیادت فاشسٹ حکمران ثابت ہورہے ہیں جو اب ہر مخالفت کو کچل دیں گے، فوجی چھپ کر اپنی بیرکوں میں بیٹھ کر اپنی جانیں بچائیں گے اور ڈرون چلا چلا کر پاکستان کو بچانے کی کوشش کریں گے.
مصنف انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کونسل – ہانگ کانگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں. ان سے درج ذیل ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
baseernaveed@gmail.com
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.