فرانس کی حکومت نے ایران میں اپنے تمام شہریوں کو تنبیہ جاری کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیا کہ وہ “جلد سے جلد ملک چھوڑ دیں۔”
فرانسیسی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا، “دوہری شہریت رکھنے والوں سمیت ان تمام فرانسیسی شہریوں کو، جو ایران کے سفر پر ہیں، کو گرفتاری، بے جا حراست اور غیر منصفانہ عدالتی کارروائیوں جیسے خطرات ہیں۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا، “یہ خطرہ ان لوگوں کو بھی ہے، جو محض سیاحت کے لیے ایران کا دورہ کر رہے ہیں۔”
فرانسیسی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ نے خبردار کیا ہے، “ایران میں گرفتار یا حراست میں لیے گئے شہریوں کو قونصلر کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تہران میں فرانسیسی سفارت خانے کا دائرہ اختیار بھی بہت محدود ہے۔”
جمعرات کے روز ایران کے ایک سرکاری ٹیلی وژن نے دو فرانسیسی شہریوں، فرانسیسی زبان کے اساتذہ کی یونین کے اہلکار سیسیل کوہلر اور ان کے ساتھی ژاک پیرس، کو “اعترافات جرم” کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ ان دونوں کو رواں برس میں مئی میں اساتذہ کی ہڑتالوں کے دوران بدامنی پھیلانے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
گیارہ مئی کو ایران نے ان کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ “افراتفری پھیلانے اور معاشرے کو غیر مستحکم کرنے کے مقصد سے ملک میں داخل ہوئے تھے۔”
اس وقت ایران کی جیلوں میں مغربی ممالک کے 20 سے بھی زیادہ شہری قید ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپ تہران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مغربی حکومتوں سے فائدہ اٹھانے اور مراعات حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی یرغمالی سفارت کاری کا استعمال کرتا ہے۔
گزشتہ 16 ستمبر کو ایک 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینیکی موت کے بعد سے ہی ایران ڈرامائی طور سماجی افراتفری اور شہری انتشار کی لپیٹ میں ہے۔ مہسا امینی کو ایران میں خواتین سے متعلق لباس کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
تاہم دوران حراست ہی ان کی موت ہو گئی تھی اور اسی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے، جو اب بھی بیشتر شہروں میں جاری ہیں۔ گزشتہ روز ہی ایران نے ایک بار پھر سے اپنا یہ دعویٰ دہرایا کہ امینی کی موت پولیس کی حراست میں تشدد کے بجائے بچپن میں ان کو ہونے والی ایک بیماری سے ہوئی تھی۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.