اسلام آباد:
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی محمد ہاشم نوتیزئی نے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ 22 جنوری سے اسمبلی اجلاس شروع ہونے کے ساتھ سے انکی پارٹی کی جانب سے تقریباً ہر روز تحریری طور پر اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی گئی ہے کہ انہیں پائنٹ آف آرڈر پہ بانک کریمہ بلوچ کی کیس پر بولنے کی اجازت دی جائے لیکن انہیں اس موضوع پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی.
محمد ہاشم نوتیزئی کا کہنا تھا کہ جب وہ بحیثیت عوامی نمائندہ اپنے حلقہ سے منتخب ہوکر آتے ہیں تو اپنے عوام کو درپیش مسائل کو اسمبلی میں پیش کرتے ہیں. اسی تناظر میں انکی کوشش ہے کہ وہ بانک کریمہ بلوچ جو دسمبر 2020 کو کینیڈا میں اغوا ہوئیں اور اگلے دن انکی لاش ملی. اس کے بعد جب انکی میت کو کراچی لایا گیا تو انکی میت کو بھی اغوا کیا گیا. اور باقاعدہ طور پر بلوچستان سے آنے وانے افراد اور کراچی کی عوام کو انکی نماز جنازہ ادا کرنے سے بھی روکھا گیا.
انکا کہنا تھا کہ ہم پارلیمانی لوگ ہیں اور جب ہماری بات کو فلور آف دا ہاؤس نہیں سنا جائیگا تو ہم اپنی بات کن کے سامنے رکھیںگے. بلوچستان کے عوام کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے. جب ہم زندہ ہیں تو بھی ہمارے ارد گرد گھیرا ہوتا ہے اور جب ہم مر جاتے ہیں تو بھی ہمارے اوپر یہ پیرا برقرار رہتا ہے. نہ ہمیں نماز جنازہ کی ادائیگی کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہمیں اپنے پیاروں کا دیدار کرنے دیا جاتا ہے. ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا کسی بھی جمہوری یا فلاحی ریاست میں ایسا ہوتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کینیڈا حکومت سے بانک کریمہ کی قتل کی تحقیقات کی تفصیلات مانگے اور بلوچستان کے عوام کو مطمئن کیا جائے کہ بانک کریمہ کی موت کس طرح سے واقع ہوئی. آخر میں انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر اسمبلی کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود انہیں بولنے نہیں دیا گیا جسکی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں.
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.