نصیر بلوچ
ایک رپورٹ کے مطابق جو 2020 میں شائع ہوئی تھی، امریکہ میں دس لاکھ لوگ بطور فری لانسر کام کر رہے ہیں۔ معیشت کو مستحکم کرنا بے روزگاری کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ اور بے روزگاری کے خاتمے کا واحد حل ٹیکنیکل اسکلز سے ممکن ہے۔ موجودہ دور میں معیشت کا انحصار ٹیکنالوجی سے آراستہ افرادی قوت پر ہے۔
پاکستان میں محرومیاں اتنی ہیں کہ ہم ضروریات کی چیزوں سے ہٹ کر سوچ نہیں سکتے۔ جب معیشت کی بات کی جائے تو سب سے پہلے تیل، خام مال اور دیگر چیزیں زبان پر آجاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معیشت کو کھڑا کرنے کے زرائع ہیں یعنی ہر وہ چیز جو بیرونی ملک اکسپورٹ کی جاتی ہے مستحکم معیشت کی ضامن ہیں۔
جدید دنیا سے ہمکنار ہونا اسی صورت ممکن ہے جب نوجوانوں کو ٹیکنیل اسکلز سے آراستہ کیا جائے۔ پاکستان میں حکمران کبھی لانگ ٹرم منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے اس ملک میں ابھی تک ایسے ادارے قائم نہیں کئے جاسکے جو معیاری تعلیم فراہم کرسکیں۔ آج کے اس جدید دور میں پاکستان میں بے روزگاری عروج پر ہے اس کے برعکس ٹیکنالوجی سے آراستہ افراد بھی ناپید ہیں۔
ملکی تعلیمی نظام کا معیار یہ ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا آج ملکی اور غیر ملکی سڑکوں پر عمران خان کے سازشی خط کے بیانیے کو لیکر نعرے بلند کررہے ہیں۔ یہ نعرے محض ان کے جذباتی تقایر کے پیش نظر بلند کیے جا رہے ہیں۔ تقریریں ہمیشہ جذباتی اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ باشعور اور صاحب علم انسان ہمیشہ عمل، کردار اور نتائج کو اہمیت دہتے ہیں۔
البتہ اسے تعلیمی نظام کا زوال ہی کہہ سکتے ہیں جب سابقہ حکومتی جماعت پی ٹی آئی نے گالم گلوج کا کلچر ملک بھر میں عام کردیا ہے۔ پہلے مخالفیں پر تنقیدیں کی جاتی تھیں اب سیدھا گالم گلوج کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ اس سے بڑا غیر اخلاقی فعل اور کیا ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا میں پھیلی عمران نیازی کی ٹیمیں اب گالم گلوج پر اتر آئی ہیں۔ پاکستانی عوام سوچنے کے صلاحیت سے محروم ہیں وہ کبھی سنجیدہ ہوکر سوچنے کی زحمت نہیں کرتے اس لئے وہ حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے اور یوں عمران نیازی جیسے لیڈر انہیں باآسانی تقاریر سے لبھاتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے جو باتیں کیں اگر ان کو عملی جامہ پہنایا جائے تو ہی بلوچستان کے عوام کی احساسِ محرومیوں کو کسی حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کے باسی محض باتیں سننے کے اب قائل نہیں اب انہیں صرف عملی کارکردگی سے ہی قائل کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال ہم وزیراعظم شہباز شریف کے تحفے یعنی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے منتظر رہیں گے۔ توقع ہے کہ یہ محض باتیں نہیں ہونگی اس حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔