فریدہ بلوچ
ڈاکٹر کا ویٹنگ روم عورتوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔کسی بھی نئے آنے والے کو مزید بیٹھنے کی جگہ نہ تھی کچھ عورتیں زمین پر بیٹھی تھیں تو کچھ بینچ پر اور ایک آدھ کھڑی تھیں۔ حبس اور گرمی سے سب کا برا حال تھا اور شور تو اتنا کہ ڈاکٹر کامعاون نوجوان لڑکا بار بار منع کرنے آتا لیکن اس کے جانے کے بعد پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوتا۔ اس حبس اور گرمی میں جو عورتیں کھڑی تھیں وہ مزید تپ رہی تھیں اتنے میں دو نقاب پوش عورتیں ویٹنگ روم میں داخل ہوئیں ان میں ایک عورت درمیانے قد اور ایک لمبے قد کی تھی ۔ کچھ دیر کے بعد لمبی عورت بینچ میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی مگر درمیانے قد کی عورت ابھی بھی کھڑی تھی۔ میرے پاس والی عورت کی باری آئی تو جوں ہی وہ اٹھی تو درمیانے قد والی عورت اس کی جگہ بیٹھ گئی سب عورتیں ان کو دیکھ کے چہ مگو ئیاں کرنے لگیں کیونکہ دونوں نقاب سے اطراف میں موجودعورتوں کو بمشکل دیکھ پارہی تھیں ۔
گرمی اور حبس ناقابل برداشت حد تک بڑھنے لگا تو بالآخر لمبی عورت نے اپنا نقاب اتارا منرل واٹر کے بوتل کو منہ سے لگایا اور چند گونٹ پینے کے بعد باقی پانی سے اپنے برقعے کے ایک سرے کو گیلا کرکے اپنے چہرے کو صاف کرتے ہوئے درمیانے قد والی عورت سے کہا نقاب دور کرو گرمی ہے ۔
جیسے ہی اس نے نقاب دور کیا وہاں بیٹھی میری جیسی جتنی بھی موجود تھیں سب کو سانپ سونگھ گیا کیونکہ وہ عورت نہیں بمشکل پندرہ سال کی ایک معصوم اور بے حد خوبصورت لڑکی تھی میں نے اسے دیکھا وہ پسینے صاف کرتے ہوئے مسکرائی میں نے اس سے پوچھا یہ تمہاری ماں ہے ؟ “نہیں میری ساس ہے “
کیا تمہاری ساس؟ اتنی چھوٹی عمر میں شادی؟ اسکے ماں باپ بھی بہت ظالم ہیں۔ میں سوچنےلگی۔ میرےچہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ بولی”
نہیں نہیں انہوں نے نہیں کروائی ،جس نے مجھے بیچا تھا پھر جس نے مجھے خریدا تھا اس نے کروائی ہے ” کک کیا مطلب ؟”ہمارے گاؤں میں ایک شادی تھی ہمارے سارے گھر والے شادی پر جا رہے تھے سب بہت خوش تھے کہ اچانک ایک زوردار دھماکا ہوا جس میں ہماری گاڑی اور ہمارے گھر والے سب ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے چند لوگ بچ گئے جن میں سے ایک میں بھی تھی۔ میں رو رہی تھی پھر کیا ہوا میرے گھر والوں کے ٹکڑوں کا کیا گیا مجھے نہیں پتا۔ اس دوران ایک گھر سے ایک آدمی نے مجھےاٹھایالیکن چند دنون بعد کسی دوسرے آدمی کے حوالے کیا دوسرا آدمی مجھے دوسرے گھر لایا اپنی بیوی سے کہا “لو تمہارا مسئلہ میں نے حل کردیا اسے میں نے ماں کی خدمت کے لیے خریدا ہے”تو اس سے مجھے معلوم ہوا کہ مجھے بیچا گیا ہے۔۔اسکی بیوی مجھے ایک کمرے میں لے گئی ایک موٹی سی مفلوج بوڑھی عورت پلنگ پر لیٹی تھی اسکی بیوی نے بہت مشکل سے اسے سہارا دیتے ہوئے بٹھایا اور بولا”تمہاری خدمت کے لیے تمہارے بیٹے نے خریدا ہے ” پھر میں نے اس بوڑھی کا ہر کام جو کر سکتی کیابھی اور جو نہیں کر سکتی وہ بھی کرتی رہی۔ مثلاً کیا کیا کام؟”میں صرف چھ سات سال کی تھی میں کپڑے تو دھو سکتی تھی مگر بوڑھی عورت کا پاخانہ صاف کرنا بہت مشکل کام تھا کھانا روٹی چائے کے علاوہ اسکے سارے کام میں ہی کرتی تھی ۔
کیا بوڑھی عورت تمہارا خیال رکھتی تھی ؟
“وہ میرا کیا خیال رکھتی ،میں اس کا خیال رکھتی تھی”
میرا مطلب ہے اسکا سلوک تمہارے ساتھ کیسا تھا۔ “اس کے لیے تو میں خریدی گئی ایک نوکر تھی، کبھی اگر میں غسل کرنے میں دیر کرتی یا رات کو گہری نیند کی وجہ سے اٹھنے میں دیر کرتی تو آدمی کی بیوی سے میری شکایت کرتی اور مجھے اسکے ہاتھوں پٹواتی مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی جو لوگ بوڑھی عورت سے ملنے آتے بس ان کو ہی میں جانتی تھی ۔تین سالوں میں وہ پہلی رات تھی جب مجھے بوڑھی عورت نے نیند سے نہیں جگایا اور جب میں صبح اٹھی تو دیکھا بوڑھی عورت کی آنکھیں اور منہ کھلی ہیں میں نے جلدی سے اس آدمی کی بیوی کو بلایا اس نے آکے دیکھا پھر سب جمع ہوگئے کیونکہ بوڑھی عورت مر چکی تھی سب رو رہے تھے ۔ میں بھی رورہی تھی ۔
پھر کچھ دن بعد مجھے بوڑھی عورت کی بیٹی اپنے گھر لے آہی ادھر مجھے گھر کا سارا کام کرنا پڑتا لیکن باہر جانے کی اجازت یہاں بھی نہیں تھی بوڑھی عورت کی بیٹی کے گھر میں بہت مہمان آتے تھے یہاں کام زیادہ تھا مگر یہاں یہ سہولت تھی کہ میں رات کو آرام سے سو تی تھی ۔تین سال بعد ایک دن اس آدمی کی بیوی آئی اور مجھے اپنے گھر لے گئی اور کچھ دن بعد میری شادی کر دی گئی اور میں اس تیسرے گھر میں آگئی ۔دو سال ہونے کو ہے میری شادی کو بچہ نہیں ہورہا تو آج یہاں لائے ہیں علاج کے لیے۔ “
کیا تمہیں بھی بچے کی خواہش ہے؟
“ہاں بہت۔!”
“میں اپنے بہن بھائی سے بہت کھیلتی تھی پیار کرتی تھی اب وہ تو نہیں رہے اب میں چاہتی ہوں جلدی سے اولاد ہو میں ان سے کھیل سکوں، پیار کر سکوں، اب تو میری زندگی کے غم بس اسی خوشی سے ہی کم ہوسکتے ہیں بس دعا کرو جلدی ہوجائے ،یہ تو مجھے آج بھی نہ چاہتے ہوئے یہاں لائے ہیں۔
کیوں کیا یہ بچہ نہیں چاہتے ؟” میرا شوہر بوری بیچتا ہے یہاں تیسرے گھر میں زیادہ کام اور زیادہ غربت ہے۔”
اسی میں اسکی باری آگئی اسکی ساس اور وہ ڈاکٹر کے کمرے میں گئے چند منٹ کے بعد اسکی ساس تیزی سے کمرے سے باہر نکلی اور اپنے ساتھ ایک پچیس سال کے جوان کو ساتھ لے کر آگئی دونوں ڈاکٹر کے کمرے میں گئے کچھ لمحے بعد تینوں ڈاکٹر کے کمرے سے باہر نکلے تو جوان اور اسکی ساس غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے اور وہ مسلسل رو رہی تھی میں نے پوچھا کیا ہوا ؟
تو وہ مجھے گلے لگا کر روتی ہوہی بولی “ڈاکٹر نے میری ساس اور شوہر کو بولا کہ میرا پیدائش سے بچہ دانی میں ایسا نقص ہےکہ میں کبھی بھی بچہ پیدانہیں کرسکتی۔۔۔۔”
یہ سنتے ہی میری آنکھیں نم ہونےلگیں اورپھر اسکے آنسو میرے کندھے کو اور میرے آنسو اسکے کندھے کو گیلا کر کے دونوں روحوں کوگیلے آگ میں گھلارہے تھے ۔