اسد ستوریانی
یہاں پر بار بار ریاست کی طرف سے سیاست پر پاپندی لگانے کے فیصلے کئے جارہے ہیں۔ طلباء تنظیموں پے ناروا فیصلے حکم کی شکل میں لاگو کرتے ہیں۔ جیسا کہ اسٹوڈنٹس کی اجتماع یا سرکلز پر پابندی۔ طلباء سیاست کے لیے ہال نہ دینا اور طلباء یونین پہ پابندی غیر روایتی اقدام ہیں۔ ایسے اقدامات سے طلباء کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا ہم کسی غلط کام کی طرف تو نہیں جا رہے۔ مگر جب سوچ میں شعور آتا ہے تو سمجھ آتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ ریاست ہمارے شعور سے خوفزدہ ہے۔ یہ خوف کہ پھر طلباء فیصلوں پر سوال اٹھائینگے انکی غیر ضروری و نقصاندہ فیصلوں کے خلاف مزاہمت کرینگے۔
یہ ریاست شاید بھول چکی ہے کہ سیاست ہی سے ملک کی ترقی جڑی ہے۔ سیاست ہی طلباء میں سے نگینے چنتی ہے۔ یہی سیاست جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔یہی سیاست ایک با کردار شخصیت کو جنم دیتی ہے۔ یہی سیاست غلط اور صحیح میں فرق دکھاتی ہے۔ انہیں شخصیات کی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ لیڈروں کی شکل میں شہیدوں کی شکل میں اور کامریڈوں کی شکل میں۔ اگر اسی طرح ریاست کی سیاست میں لوگ آسمانوں سے آئینگے تو حال یہی ہوگا جو اس وقت اس ریاست کا ہے.
تو ہماری سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے ہم سب کو ایک ہونا ہوگا ۔ رنگی تعصّب کو بھلا کے قومی تعصّب کو بھلا کے،نسلی تعصّب کو بھلا کے ،مذہبی تعصب کو بھلا کے ۔ ہم سب کو ایک صف میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ اختلاف ہوتا ہے ہر شخص کا دوسرے شخص سے۔ نظریاتی اختلاف، سیاسی اختلاف۔ اختلاف کسی کے کردار سے اختلاف کسی کے عمل سے۔
مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے ہماری منزل جدا ہے۔ ہم سب کی ایک ہی خواہش ہے ایک ہی منزل ہے وہ یہ کے ہمارے پیارے بلوچستان کی عوام کو جینے کی آزادی ہو، پڑھنے کی آزادی ہو اپنے سائل وسائل کو خود کے لیے استعمال کرنے کی آزادی ہو. یہاں کسی ظالم کی مجال نہ ہو ہماری عوام پہ ظلم کرنے کی۔ تبھی ہم اپنے ملک کی حفاظت کر پائینگے۔ اپنے عوام کو اُنکا حق دلا پائینگے اور اپنے نگینوں کو تراش پائینگے۔
مصنف ایک طالب علم ہیں اور پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن، بلوچستان یونیورسٹی کے یونٹ سیکرٹری ہیں