لسبیلہ:
لسبیلہ یونیورسٹی میں پنجگور سے تعلق رکھنے والے طلباء نے آئے دن پنجگور میں بدامنی اور قتل عام کے حوالے سے یونیورسٹی کے دائرے میں بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر طلباء اور اساتذہ کے درمیان آگاہی مہم چلائی۔
تمام طلباء نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر کلاسز لیے اور دوسرے طلباء اور اساتذہ سے مل کر پنجگور کے حالات کے حوالے سے آگاہ کیا اور انہیں مہم میں حصہ لینے کی دعوت دی اور سماجی رابطوں پر چل رہے
PanjgurBleeds#
پر زیادہ سے زیادہ ٹویٹ کرنے پر زور دیا گیا۔
طلبا کا کہنا تھا کہ اس عمل کا مقصد یہ ہے کہ پنجگور کے لوگوں کی جو آواز ہے اسے خواب خرگوش میں سوئے ہوئے حکمرانوں کے کانوں تک پہنچائیں-
طلبا کا کہنا تھا کہ ضلع پنجگور کو قبرستانوں کو سجانا ایک رسم بنا ہوا ہے۔ یہ خودساختہ رسم رواجوں کو کوئی بھی نہیں مانتا اور ان رسموں کے خلاف اکثر سماجی و سیاسی حلقوں کی جانب سے آوازیں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن ان آوازوں کو مزید تشدد کے طریقے استعمال کر کے دبایا جاتا ہے۔ اس نسل کشی کا تسلسل اور انتظامیہ کی خاموشی بدامنی کی راہیں ہموار کرنے اور بد امنی پر سوالوں کے واضح جواب تصور کیے جاتے ہیں۔ لیکن انتظامیہ بھی ان نازیبا واقعات سے نالاں نظر آنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔
پنجگور میں صرف اگست کے مہینے میں 21 لوگوں کو بیدردی سے شہید کیاگیا ہے۔ اس آگ کے پھیلاؤ نے مشہور شخصیات سے لیکر ایک عام چاے والے کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور کو ئی بھی اپنے آپ کو اس دم گھٹنے والی ماحول میں محفوظ نہیں سمجھتا۔3,16,385 کی ابادی میں اگر یہی ٹرینڈ رہا تو پنجگور کا شُمار دنیا کے 10 خطرناک ترین شہروں میں ہوگا۔
اس سے پہلے کے اور دیر ہو جائے اور ہم سب باری باری اس ظلم و جبر کا شکار ہوں۔ آواز بلند کریں آج ایک تو کل چار کے کانوں تک یہ آواز جایئے گی تو پرسوں چار سو سے چار ہزار تک یہ گونج بن کر ابھرے گی۔