حیدرآباد: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت بلوچستان کے عوام کی دادرسی اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے پوری توجہ دیں گے، شاہ لطیف کی دھرتی پر آج یہاں لاکھوں عوام جمع ہیں لیکن حکومتی بھونپو اب بھی ٹیلی وژن پر یہی کہتے نظر آئیں گے کہ چند ہزار لوگ ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا 44 فیصد ہونے کے باوجود اس کے عوام حقوق سے محروم اور خستہ حال ہیں۔ہٹڑی بائی پاس پر پی ڈی ایم کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی طرف سے تاریخی جلسے کے انعقاد پر بلاول بھٹو زرداری کو مبادکباد دیتے ہوئے کہا کہ 70 سال سے ملک کے کارخانے چلانے والا بلوچستان آج گیس سے محروم ہے۔
حالانکہ یہاں دنیا کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ قلات کے مری بگٹی ایریا میں سب سے بڑے گیس کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں مگر پھر بھی ہم مجبور اور بے بس ہیں اور عوام کو ان کا حق نہیں مل رہا، انہوں نے کہا کہ سندھ میں شاہرائیں بن رہی ہیں نئے ہسپتال کھل رہے ہیں بڑے پروجیکٹس کا افتتاح ہو رہا ہے یہ سندھیوں کو مبارک ہو لیکن بلاول صاحب آپ نے اس سے اور زیادہ کام کرنا ہے اور سندھ کو گلستان بنانا ہے، انہوں نے کہا کہ خدا کے لئے پشتونوں کو بھی یاد رکھا جائے اور پاکستان کو بچایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آکسیجن پر چل رہی ہے لوگوں کو حقوق ملیں گے انصاف کا بول بالا ہو گا تو ہی ملک میں امن قائم ہو گا، انہوں نے کہا کہ سب ناکامیاں اور خرابیاں اس دور میں عروج کو پہنچ رہی ہیں لیکن پھر بھی کہا جا رہا ہے گھبرانا نہیں ہے، لیکن قوم کب تک نہ گھبرائے، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے وزراء کے سالن میں نمک بھی زیادہ ہو جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سابقہ حکومتوں کی وجہ سے ہے۔
یہ ڈھائی سال سے حکمران ہیں جن کو بندوق کی طاقت سے اقتدار میں لایا گیا ہے، جیسے بھی اقتدار میں آ گئے کچھ کر کے تو دکھائیں، انہوں نے کہا کہ تمام ہی سیاسی مکتبہ فکر اور اب تو حکومت کے اتحادی بھی ان سے بیزار ہیں، نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتے لیکن مداخلت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ جب میں کہتا تھا کہ بلوچستان میں فوج کشی ہو رہی ہے۔
میں کہتا تھا کہ میرے صوبے کے مسنگ پرسنز کو رہا کرو، جو دولت میرے گھر سے نکلتی ہے اس پر میرا حق بھی تسلیم کرو، ہمارے رہنماء سب یہی کہتے چلے گئے مگر ہماری کسی نے نہیں سنی اور یہی کہا جاتا رہا کہ یہ ملک دشمنی ہے یہ کسی دوسرے کی زبان بول رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بتایا جائے کہ بلوچستان کے ارکان اسمبلی اور سینیٹر رہنے والے کیوں وفاق سے بیزار رہے ہیں۔ وہ کیوں ملک کے موجود ہ نظام سے بیزار ہوئے اس کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم ہونا چاہیے،
انہوں نے کہا کہ جب میرے رہنماء سردار اختر مینگل کہتے ہیں کہ میں جمہوری جدوجہد جاری رکھوں گا پھر بھی برداشت نہیں کیا جاتا، لیکن ہم اپنے گلے شکوے جاری رکھیں گے. انہوں نے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ سونا اگلتا ہوا پنجاب آپ کو مبارک سب صوبوں کو ان کے وسائل اور نعمتیں مبارک لیکن کچھ بلوچستان کے عوام کا بھی خیال کرو، انہوں نے کہا کہ جب سردار اکبر بگٹی نے بلوچستان کے حقوق کی بات کی تو انہیں شہید کر دیا گیا، اگر ہمارے نوجوان کوئی اور راستہ اختیار کریں گے تو اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت اور ان کر لانے والوں پر عائد ہو گی۔