جی سیون تنظیم کے سربراہان کی جانب سے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کو ہیروشیما مدعو کرنا جہاں روس کے لیے ایک واضح پیغام تھا وہیں ان عالمی رہنماوں کی ایک اور حریف پر بھی نظر تھی اور وہ ہے چین۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ عالمی سکیورٹی اور ترقی سے منسلک ’چین ہمارے زمانے کا سب سے بڑا چیلنج ہے‘ اور یہ کہ چین ’اندرونی اور بیرونی محاذوں پر آمرانہ طرز عمل میں اضافہ کر رہا ہے۔‘
دنیا کے سب سے امیر جمہوری ممالک کے سربراہان نے ایک نہیں بلکہ دو بیانات کے ذریعے تائیوان اور انڈو پیسیفک جیسے متنازع امور پر چین کو اپنا موقف واضح کیا۔ لیکن ان کے پیغام کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس میں ’معاشی غنڈہ گردی‘ کی بات کی گئی۔
جی سیون کے لیے معتدل رہنا کچھ مشکل ہو چکا ہے۔ ان ممالک کی معیشت کا انحصار تجارت کی وجہ سے چین پر ہے لیکن انسانی حقوق سمیت مختلف معاملات پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں اور تجارتی محاذ پر بھی چین سے مقابلہ بڑھ چکا ہے۔
ان ممالک کو پریشانی لاحق ہے کہ وہ یرغمال بن چکے ہیں۔
حالیہ برسوں میں چین ایسے ممالک پر پابندیاں لگانے سے بلکل نہیں ہچکچایا جنھوں نے بیجنگ کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لیا۔ ان میں جنوبی کوریا بھی شامل ہے جس نے امریکی دفاعی نظام اپنی زمین پر لگوایا جبکہ آسٹریلیا بھی چین سے تعلقات میں سردمہری کے بعد پابندیوں کا سامنا کر چکا ہے۔
یورپی یونین اس وقت خاص طور پر پریشان ہوئی جب چین نے تائیوان کا سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دینے کے ردعمل میں لتھوینیا کی برآمدات بند کر دیں۔
چنانچہ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ جی سیون نے ’معاشی کمزوریوں کو ہتھیار‘ کی طرح استعمال کرنے کے ’تشویش ناک رجحان‘ کی مذمت کی ہے۔
جی سیون کے مطابق ایسی زبردستی ’دنیا بھر میں خارجہ اور داخلہ امور پر جی سیون اور ان کے حامی ممالک کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے۔‘
ایسے میں ایک نئی پالیسی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جسے ’ڈی رسکنگ‘ یعنی خطرات میں کمی کا نام دیا گیا ہے۔
اس پالیسی کو وان ڈر لیئین کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے جس میں چین سے سفارتی معاملات پر سخت طریقے سے بات چیت، تجاری ذرائع میں تنوع لانے اور ٹیکنالوجی اور تجارت کو محفوظ بنانے کے نکات شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ایسی ہی ایک پالیسی امریکہ کی جانب سے بھی سامنے آ چکی ہے۔
جی سیون کی جانب سے ایک پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا گیا ہے تا کہ چین کی ’معاشی غنڈہ گردی‘ کو روکا جا سکے اور ترقی پذیر ممالک سے تعاون بڑھایا جا سکے۔
اب تک اس پالیسی پر کچھ ابہام باقی ہے تاہم ممکن ہے کہ اس کے تحت مغربی ممالک ایسے ممالک کی تجارت یا فنڈنگ کے ذریعے مدد کریں جن کو چین کی جانب سے معاشی مشکلات یا پابندیوں کا سامنا ہو۔
جی سیون نے معدنیات اور سیمی کنڈکٹرز جیسی اہم مصنوعات کی فراہمی کو مضبوط کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے جبکہ ٹیکنالوجی کی چوری اور ہیکنگ روکنے کے لیے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بھی بہتر بنانے کا ارادہ ہے۔
جی سیون کی جانب سے برآمدات پر کنٹرول ایک ہتھیار بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی ٹیکنالوجی (خصوصا عسکری اور انٹیلیجنس شعبہ جات) ’بدنیت عناصر‘ کے ہاتھ نہ لگیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.