کوہ مراد ذگری فرقے کے لئے کلیدی حیثیت کاحامل ہے جس کی تقدیس کا پس منظرتاحال تحقیق طلب ہے۔
معروف بلوچ دانشور و تاریخ دان جان محمد دشتی رقم طراز ہیں کہ “ذگری ہندوستان کی مہدوی تحریک کا ایک حصہ ہے۔
یہ اُسی نظریاتی اورفکری تحریکات میں سے ایک ہے جس کامقصد ابتداً خطہ عرب کے مذہب اسلام کی بنیادی اور ابدی نظریات کوان کی روح کے مطابق بحال کرنا اورانہیں ہندوستان کی قدیم مذہبی فکر کے اثرات سے محفوظ رکھناتھا۔
اس زمانے میں اس فکرنے ہندوستان کے کئی علاقوں انقلاب برپا کیا تھا۔
ذگری تحریک کے ابتدائی رہنما سیّد محمد جونپوری (1443-1504)ایک پارسا،باعمل اوراپنے عہد کے بڑے علما میں سے ایک تھا۔
بلوچوں نے مہدوی تحریک کی تقلید کب شروع کی اور ان کا مذہبی پیشواکون تھااب تک واضح نہیں ہے۔
لیکن یہ بات کہ سیّد محمد جونپوری بنفس نفیس بلوچستان آئے تھے اور مہدوی تحریک کی رہنمائی کی تھی مکمل طورپرغلط ہے”۔
اس تاریخی حوالے کے باوجود یہ بات البتہ رَد نہیں کی جاسکتی کہ ذگری فرقہ کےارکان سوفیصدی بلوچ ہیں اور ان کی زبان بلوچی،ثقافت اور رہن سہن مکمل طوردیگرصوم وصلاۃ کے پابند سُنّی حنفی بلوچوں کی ایک ہی ہے۔
بقول جان محمد دشتی کے ذگریوں پرکئی ایک جبرکی وجہ ان کا بلوچ ہونا ہے جس کی وجہ ان کی سرزمین ہے جس سے کئی ہمسائے خائف ہیں۔ سیاست اور مفادات کے مہمات نے ذگریوں کو زیرعتاب کردیا ہے۔
کوہ مراد زیارت کے مختلف مناظراور زائرین کودرپیش مسائل اور رہائش وغیرہ کے لئے فراہم کئے گئے غیرمنصفانہ بُندر اوردیگرضروریات کی فراہمی ثابت کرتے ہیں کہ طاقتورطبقہ وسائل کی لوٹ کھسوٹ پرنظررکھتا ہے اسے عقائد اور روحانی گرفت کوئی گزند نہیں پہنچائی جاسکتی۔
ذرائع کے مطابق ذگری زائرین سے عطیات،چندہ وغیرہ کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے جمع ہوکرمذہبی پیشوائوں کےحوالے کئے جاتے ہیں
اور مریدین و زائرین کو تربت جہاں زیارت عموماً شدید گرم مہینوں پڑتا ہے جب پارہ 52سنٹی گریڈ تک چڑھ جاتا ہے۔
زائرین کو تپتے سیاہ ڈَل، باریک خیموں اور امام کے مابعدالطبعیاتی وجود کے سہارے چھوڑدیا جاتا ہے۔
بلوچستان افیئرزکی ٹیم نے زیارت کمیٹی کے سیزنل سربراہ ملا برکت کے تعاون سے مزکورہ تصاویراور ویڈیوزبنائے ہیں۔
جن کامقصد ثقافتی اور روحانی احترام کو ملحوظ رکھ کرغیرجانبدارصحافت ہے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.