تربت:
ہوشاپ میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں لاپتہ کیے گئے بلوچ خاتون نورجان زوجہ فضل کی بازیابی کے لیے حق دو تحریک کیچ کی جانب سے تربت پریس کلب روڑ سے ریلی نکالی گئی جس میں حق دو تحریک اور تربت سول سوسائٹی کے کارکنان شریک تھے، ریلی کے شرکاء مارچ کرتے شھید فدا چوک پر جمع ہوئے جہاں مبینہ طورپرمغوی خاتون کی رہائی کے لیے دھرنا دیا گیا۔
دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے ضلعی امیر غلام یاسین بلوچ، حق دو تحریک کیچ کے سربراہ صادق فتح، صبغت اللہ شاہ جی اور عیسی غمی نے کہا کہ سی ٹی ڈی ایک سرکاری غنڈہ فورس ہے جس کا کام لوگوں کو بلاوجہ لاپتہ کرنا، گرفتار کرکے مقابلے کے نام پر قتل کرنا اور اسی نوعیت کے جرائم کرنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ نورجان زوجہ فضل کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کی گرفتاری بلوچی روایات کی پامالی ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے، اگر سی ٹی ڈی کو یوں ہی بے لگام چھوڑا گیا تو کوئی بلوچ گھر محفوظ نہیں رہے گا اور نا ہی ہماری عزت اور غیرت محفوظ ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ نورجان کی گرفتاری اور ان پر بے بنیاد الزامات لگاکر سرکار نے جھوٹ کی حدود پار کی ہیں، سی پیک شاہراہ پر غیر ملکی یا چائنیز قافلے اس سے پہلے کب گزرے ہیں کہ ان. پر خود کش حملہ کیا جائے گا، جھوٹ بھی عقل. مندی سے بولا جائے تاکہ اس پر سچ کا کم از کم گمان تو ہو۔
انہوں نے کہاکہ ایک کشیدہ کار عورت کو خودکش بمبار ظاہر کرنا اداروں کی نااہلی ہے، یہ عجب ہے کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون مجبور ہوکر خودکش بمبار بنتا ہے اور ادارے اس حد تک خوف َدہ رہتے ہیں کہ انہیں ہر بلوچ بیٹی خودکش نظر آنے لگتا ہے، اگر ایک. کشیدہ کار ان پڑھ عورت اس جھوٹ کو مان لیا جائے کہ خودکش بمبار بننے پر مجبور ہوئی ہے تو ادارے بتائیں یہ کس کا قصور ہے۔
انہوں نے کہاکہ پیر کوہ میں عوام پانی کے لیے ترس رہے ہیں، ہمارے وسائل پر ہمارا دسترس نہیں، تعلیمی اداروں میں ہمارے بھائیوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے، ایک طبقہ. کہتا ہے کہ بلوچستان بنجر زمین ہے، اگر بلوچستان بنجر ہے تو ہم نے کب منت سماجت کی ہے کہ اس بنجر زمین پر رہا جائے، اسے چھوڑ دیں ہم آپ سے کبھی جانے کا گلہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ ایک بلوچ عورت کے اغوا پر نام نہاد قوم پرستوں کو آواز بلند کرکے تربت میں شٹرڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کرنا چاہیے تھا لیکن وہ ایک سوپچاس روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض کونسلر کی نشست کے لیے بلوچی غیرت کی سودا گری میں شامل ہیں۔