یہ انتباہ ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا جس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ آنے والے برسوں میں زراعت، بجلی کی پیداوار اور انسانی استعمال کے لیے پانی کی قلت کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
امریکا کی ورجینیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم کو شامل کرکے دنیا بھر میں تازہ پانی کے اہم ترین 2 ہزار کے قریب ذخائر کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 3 دہائیوں کے دوران 2 ہزار کے قریب بڑی جھیلوں میں سالانہ 22 گیگا ٹن پانی کی کمی آئی، یہ مقدار 2015 میں امریکا میں استعمال ہونے والے پانی کی مجموعی مقدار کے برابر ہے۔
جرنل سائنس میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ قدرتی جھیلوں کے حجم میں آنے والی 56 فیصد کمی عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور انسانی استعمال کے باعث آئی۔
سائنسدانوں کا پہلے اندازہ تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا کے بنجر حصے خشک جبکہ نمی والے خطوں میں نمی بڑھ جائے گی، مگر اس تحقیق میں دریافت ہوا کہ نمی والے حصوں میں بھی پانی کی مقدار میں نمایاں کمی آئی ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ انسانوں کی جانب سے پانی کے بہت زیادہ استعمال، بارش برسنے میں آنے والی تبدیلیوں، درجہ حرارت میں اضافے سے 1992 سے 2020 کے دوران 53 فیصد جھیلوں کے حجم میں کمی آئی۔
جھیلوں کے حجم میں کمی سے دنیا بھر میں لگ بھگ 2 ارب افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں اور حالیہ برسوں میں متعدد خطوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہوا۔
سائنسدانوں کی جانب سے عرصے سے انتباہ کیا جا رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین نتائج سے بچنے کے لیے عالمی درجہ حرارت کو صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرنے سے روکنا ضروری ہے۔
اس وقت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں عالمی درجہ حرارت میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہو چکا ہے۔