کوئٹہ:
بی ایس او کے مرکزی چئیرمین جہانگیرمنظور بلوچ نے گذشتہ روز بلوچستان بارڈر پر پھنسے تین ڈرائیوروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بارڈر کی بندش کی وجہ سے اس وقت ہزاروں مزدور اور ڈرائیور بھوک اور پیاس سے نڈھال ہیں۔
شدید گرمی کے موسم میں لوگ پانی اور خوراک کے لیے ترس رہے ہیں جس سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جب کہ اس مسئلے پربلوچستان حکومت کی خاموشی اور غیرسنجیدگی باعث افسوس ہے۔چئیرمین بی ایس او نے مزید کہا ہے کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے لوگوں کا گزر بسر ایرانی تیل کے کاروبار پر ہے۔ تفتان سے لیکر جیمڑی تک لاکھوں خاندانوں کے چولہے ایرانی تیل کے کاروبار سے چل رہے ہیں۔
حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ڈگری یافتہ نوجوان نوکریوں سے محروم ہوکر بارڈر پر روزی کمانے پر مجبور ہیں۔انھوں نے کہا کہ شہریوں کو باعزت روزگار کی فراہمی حکمران کا کام ہے جب کہ جام حکومت نوجوانوں کو سہولت اور روزگار دینے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔بلوچ عوام معاشی بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انھوں نے کہا جام حکومت کی جانب سے تیل کے کاروبار پر پابندی بلوچ قوم کا معاشی قتل ہے۔ شدید مہنگائی کے اس دور میں غریب اور مزدور طبقہ دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں جب کہ حکومت لوگوں کے روزگار کو چھین کر ان کو نان شبینہ کا محتاج بنارہی ہے۔
چئیرمین بی ایس او جہانگیرمنظور بلوچ نے کہا کہ تیل کے کاروبار سے منسلک ڈرائیوروں کو درجنوں چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے جہاں ان سے بھتہ وصول کرکے ان کی بدترین تذلیل کی جاتی ہے ۔اس وقت بارڈر کی بندش سے مکران سمیت پورے بلوچستان میں معاشی بحران نے جنم لیا ہے۔
اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں جب کہ بارڈر پر سیکورٹی کی جانب سے ڈرائیوروں کو روکھا گیا ہے۔ شدید گرمی، بھوک و پیاس کی وجہ سے گذشتہ روز تین ڈرائیور جان کی بازی ہوچکے ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ یہ تعداد اس سے زیادہ ہوگی۔تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ موجودہ صورتحال میں بارڈر پر پھنسے ڈرائیوروں کی آواز بنیں۔ انھوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بی ایس او بلوچ عوام کی معاشی نسل کشی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائے گی۔