تربت:
بی-ایس-او کے سابقہ مرکزی سینئر جوائنٹ سیکرٹری انیس احمد بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان خاص کر مکران کے قوم پرست، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی بارڈر بندش پر خاموشی سوالیہ نشان بن چکی ہے. انکا کہنا تھا کہ مکران ایک پسماندہ ترین غیر ترقی یافتہ علاقے میں شمار کیا جاتا ہے یہاں کے عوام ترقی کے دور میں بھی قرون وسطی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. تعلیم، صحت، زراعت روزگار اور دیگر سہولیات آج تک انکی دسترس میں نہیں ہیں. مکران کے عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی پسماندگی اور بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے ازیت ناک حالات سے دوچار ہیں.
انہوں نے کہا کہ وقت اور حالات کی بے رحم معاشی بدحالی، ظلم، ناانصافی اور بیروزگاری مکران کے عوام کو ورثے کے طور پر جابر حکمرانوں نے انکی جھولی میں ڈالی ہے جو انھیں غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنے کی سوچ رکھتے ہیں. حاکم وقت روزاول سے مکران کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے چشم پوشی کرتے آرہے ہیں. تعلیم سمیت صحت، زراعت، امن و امان اور ہر شعبہ زندگی تباہی کی طرف بڑھتے جارہے ہیں مگر بلوچستان کی تقدیر اور مکران کے عوام کی بہتر مستقبل کا سوچ ختم ہوتا دیکھائی دے رہا ہے.
مکران ایک بارڈر علاقہ ہے. مملکت کی طرف سے یہاں کے عوام کیلئے ترقی اور روزگار کے دروازے بند ھونے کی وجہ سے محنت کش مزدور اور کاروباری لوگوں نے شروع دن سے ایرانی بارڈر کا رخ کرکے مشکل ترین حالات میں اپنی کاروبار اور ذریعہ معاش کے حصول کیلئے اسی بارڈر سے محنت و مزدوری کر رہے ہیں. ہر طبقہ دکاندار، مزدور، گیراج، آٹوز، سروس اسٹیشن سبزی فروش ڈرائیور کی گزربسر کا واحد ذریعہ اسی بارڈر کی کاروبار سے منسلک رہا ہے. گوادر سے لیکر تفتان کے عوام کا اہم روزگار کا ذریعہ ایرانی بارڈر ہے جو اسی روزگار اور اپنی محنت کی کمائی سے اپنی گھر اور بچوں کی تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے میں کافی سہولیات میسر رہی ہے. مگر وقت کی جبر اور ناانصافی کی زہر میں ایک بار پھر حاکموں نے اپنے ہی عوام کو ایسا ڈسہ جسکی زخم بمشکل ختم ہو. باڈ کی آڈ میں بیک جنبش قلم سے پورے مکران کے عوام کی خوشیوں کے پروانے پر دستخط کرکے نان شبینہ کا محتاج بنایا اور کاروبار پر مکمل پابندی عائد کرکے لوگوں کی ہنستا زندگیوں میں مایوسی پھیلا کر اذیت ناک حالات سے دوچار کردیا گیا.
ھزاروں لوگوں نے اپنی گھر زیورات جمع پونجھی بیچ کر قسطوں پر گاڑیاں خرید لی ہیں اسی بارڈر کے آسراہ پر اج یہاں کے عوام کی تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں. بارڈر کی بندش سے مکران میں بیروزگاری کی ایک تباہ کن لہر پیدا ہونے والی ہے جو ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے. معاشی بدحالی کی بدترین صورت حال کا سبب بن سکتا ہے جس سے معاشرے میں انارکی پھیل سکتا ہے. چوری ڈکیتی کلاشنکوف کلچر کا رواج قائم ھوسکتا ہے اور دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی خاموشی بہت بڑے المیہ سے کم نہیں ہے. بارڈر سے منسلک کاروباری لوگوں کا تعلق بھی ہر پارٹیوں سے ہے. آج جب پارٹیز اپنے ووٹرز اور ورکروں کی بنیادی حقوق اور انکی کاروبار کو تحفظ فراہم نہیں کر پا رہے تو یہ انکی عوام دوستی پر سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے جب کہ آج انکی معاشی اور روزگار کا مسلہ ہے تو سب پارٹیوں کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں. انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ میں تمام جماعتوں سے درخوست کرتا ہوں کہ خدارا اپنے عوام کو بے یارومدد نہ چھوڑیں. اگر اس مسلے پر ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا تو مستقبل میں کافی برے اثرات مرتب ھوسکتے ھیں. اس حوالے سے مکران کے تمام سیاسی پارٹیز، مذھبی جماعتیں اور سول سوسائٹی اپنا کردار ادا کریں