پینٹاگون کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے امریکی فوجی اور سفارتی مقامات پر حالیہ راکٹ حملوں کے جواب میں فضائی حملوں کا حکم دیا تھا۔ ان حملوں میں سترہ ایران نواز جنگجووں کے ہلاک ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔
مشرقی شام میں فضائی حملے صدر کی حیثیت سے جوبائیڈن کی پہلی فوجی کارروائی ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے دوران امریکی فوج نے ان تنصیبات کو نشانہ بنایا جنہیں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا استعمال کر رہی تھی۔
پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ فضائی حملے ”صدر بائیڈن کے حکم پر” کیے گئے ہیں اور یہ عراق میں امریکی فوجیوں اور اتحادیوں پر حالیہ راکٹ حملوں کے خلاف جوابی کارروائی ہے۔
جان کربی نے مزید کہا”صدر جو بائیڈن کے حکم پر امریکی فوج نے مشرقی شام میں ایرانی حمایت یافتہ جنگجوں کے زیر استعمال انفرا اسٹرکچر پر فضائی حملے کیے۔ یہ حملے عراق میں امریکی اور اتحادی ملکوں کے خلاف حالیہ حملوں اور ان ملکوں کے اہلکاروں کو لاحق خطرات کے مد نظر کیے گئے ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ ان حملوں کے دوران ایرانی حمایت یافتہ عراقی مسلح گروپوں بشمول کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا کے زیر استعمال سرحدی کنٹرول پوائنٹ کو نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ دنوں عراق میں امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے ٹھکانوں پر تین راکٹ حملے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اربیل میں بھی ایک فوجی کمپلیکس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایک شہری اور اتحادی فوج کے ساتھ کام کرنے والا ایک غیرملکی کانٹریکٹر ہلاک ہوگیا تھا جب کہ ایک امریکی فوجی متعدد دیگر امریکی کانٹریکٹر زخمی بھی ہوئے تھے۔
عراق میں ہونے والے ان حملوں کے پیچھے ایرانی حمایت یافتہ جنگجو گروپوں کا ہاتھ بتایا جا تا ہے۔ ان حملوں نے نئی بائیڈن انتظامیہ کے لیے چیلنج کھڑا کردیا ہے جو جوہری پروگرام کے حوالے سے تہران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ بحال کرنا چاہتی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا چاہتی ہے جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو یک طرفہ طور پر الگ کرلیا تھا۔ لیکن دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ تہران کو مشرق وسطی کی سکیورٹی کے لیے ایک مسلسل خطرے کے طور پر بھی دیکھتی ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ان فضائی حملوں کے فوراً بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کس چیز کو نشانہ بنایا ہے۔ ہمیں مکمل یقین ہے کہ ان حملوں میں ان اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے جنہیں بعض شیعہ عسکریت پسند گروپ استعمال کر رہے تھے۔
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.