اداریہ:
اگر گوادر کو غیر موجود ‘جنوبی بلوچستان’ کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان بلوچستان کی حتمی تقسیم کی راہ ہموار کرنا ہے تو یہ بلوچ قوم پرستوں کے لئے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ وہ یقینی طور پر رد عمل کا اظہار کریں گے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے تو اپنے اعلان کردہ احتجاجی ریلیاں نکالنے کے فیصلے پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم، دیکھنا یہ ہے کہ وہ مزید کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور بلوچستان کی تقسیم کی مخالفت میں ان کی مزاحمت کتنی مؤثر ثابت ہوگی.
بلوچستان میں سیاسی ماحول پچھلے 15 سالوں سے قوم پرست قوتوں کے لئے سازگار نہیں رہا ہے۔ سی پیک کی آمد کے ساتھ ہی ضلع گوادر میں فوج کی طرف سے زمینوں پر قبضہ اور ڈیرہ بگٹی میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے ساتھ لیز پر دی گئی اراضی کا معاملہ اس صدی کے اوائل میں منظر عام پر آئے۔ بلوچ قیادت اور ان کی سیاسی تنظیموں نے ان اقدامات کے تناظر میں متحد ہوکر ایک جدوجہد کا آغاز کیا جسے انہوں نے بلوچ قوم کے ساحل اور وسائل کی تحفظ قرار دیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی)، نیشنل پارٹی ، اور حق توار میں موجود نواب خیر بخش مری کے حامیوں پر مشتمل ایک چار جماعتی اتحاد نے بلوچستان میں تباہ کن ریاستی پالیسیوں کے خلاف ایک عوامی مہم کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی عوامی پزیرائی میں اضافے کے ساتھ ہی، فوجی اسٹیبلشمنٹ نے سخت رد عمل کا اظہار کیا. سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے بعد، اس وقت پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، جنرل مشرف نے بلوچ قوم پرست قوتوں کے خلاف بے رحمانہ فوجی آپریشن کا حکم دیا. نواب اکبر بگٹی کو آرمی کمانڈوز نے قتل کیا، سردار اختر مینگل کو گرفتار کرلیا گیا، اور نوابزادہ بالاچ مری کو پراسرار حالات میں مارا گیا- غلام محمد اور بی این ایم کے دیگر رہنماؤں کو بے رحمی سے ہلاک کردیا گیا۔ بہت سے سیاسی کارکن اور رہنما جلاوطنی میں چلے گئے۔ نواب بگٹی ، نواب خیر بخش مری ، اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے پیروکاروں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی مداخلتوں کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کردی۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد، جے ڈبلیو پی بلوچ سیاست میں غیر متعلقہ ہوگئی، نواب خیر بخش مری نے سیاسی جماعتوں سے ناگواری کا اعلان کیا اور بی این ایم اور اس کے طلبہ ونگ بی ایس او (آزاد) نے مسلح مزاحمت کی کھلی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی میدان چھوڑ دیا۔
ریاستی اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل مسلح مزاحمت اور سیاسی محاذ دونوں پر بے رحمانہ تھا۔ ‘کل اینڈ ڈمپ’ پالیسی نے مزاحمتی جنگجوؤں اور انکے مددگاروں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ سینکڑوں افراد مارے گئے، کئی دیہات تباہ ہوئے، اور ہزاروں افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ سیاسی محاذ پر، نواب اکبر بگٹی کے قتل، بی این پی کے متعدد کارکنوں کے قتل اور بی این پی کے دیگر رہنماؤں کی طویل عدم موجودگی، بی این ایم اور بی ایس او (آزاد) پر پابندی اور انکے کچلے جانے اور نواب خیر بخش مری کی سیاسی غیر فعالی سے ایک خلاء نے جنم لیا اور اس سیاسی خلاء کو ریاستی خادموں نے پر کیا۔ اس طرح سے سیاسی کم مرتبہ، منشیات فروش اور معاشرتی حوالے سے دوتھکارے ہوئے افراد سیاسی افک پر چھا گئے.
بلوچستان کی واضع تقسیم کے موجودہ مسئلے سے نمٹنے کے لئے مسلح مزاحمت اور سیاسی تحریک ہی آپشن رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کا دعوی ہے کہ اس نے بلوچ مسلح مزاحمت کا قلع قمع کر دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلح مزاحمت میدان میں حاصل کیے گئے تجربات سے پختگی پا چکی ہے اور مبصرین کا خیال ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ بلوچستان کی تقسیم کے کسی بھی منصوبے کو ناکام بناسکیں۔ سیاسی طور پر، نواب بگٹی، نواب مری کی عدم موجودگی اور اپنی عمر کی وجہ سے سردار مینگل کی عملی غیرفعالی کے ساتھ، بلوچستان نیشنل پارٹی میدان میں بلوچ عوام کے حقوق کے لئے واحد قابل ذکر آواز دکھائی دیتی ہے۔ نیشنل پارٹی بھی کئی سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وابستہ رہنے کے بعد قوم پرستوں کی سرکلز میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلوچستان کی تقسیم کو روکنے اور بلوچ سرزمین کی علاقائی سالمیت کی تحفظ کے لئے قوم پرست قوتوں کے اتحاد کی باتیں مختلف سیاسی اور فکری حلقوں کی جانب سے سامنے آ رہی ہیں. تاہم ، اس اتحاد کی شکل کیا ہوگی اور اسے کس حد تک عوام کو متحرک کرنے کی اجازت حاصل ہوگی، یہ موجودہ بلوچ قیادت کا اصل امتحان ہوگا۔
- CAP to hold a side event on Balochistan at the United Nations - March 14, 2023
- ولی کاکڑ! تمہیں ضرور یاد ہوگا، گورنر تعینات ہونے پر ولی کاکڑ کو بلوچ رہنماء جاوید مینگل کا پیغام - March 6, 2023
- زمینداروں نے بجلی کی بندش کیخلاف بلوچستان میں شاہراہیں بند کردیں، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا مطالبہ - March 2, 2023