جرمن حکومت کے مطابق افغانستان کے لیے آئندہ ہر قسم کی مالی امداد وہاں جمہوری معیارات پر عمل اور ان کے احترام سے مشروط ہو گی۔ امریکا اور جرمنی سمیت نیٹو ممالک کے فوجی ان دنوں افغانستان سے حتمی واپسی کی تیاریوں میں ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن حکومت افغانستان سے اپنے سارے فوجی اس سال گیارہ ستمبر کو امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بیس سال پورے ہونے سے پہلے نکال لے گی۔
افغانستان میں اب تک تعینات مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے، جن میں بہت بڑی اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔ نیٹو کی اس فورس میں شامل جرمن فوجیوں کی تعداد 1100 کے قریب ہے اور نفری کے لحاظ سے جرمنی امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
اس تناظر میں افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے آج جمعرات انتیس اپریل کے روز کابل میں کہا کہ مستقبل میں افغانستان کے لیے ہر قسم کی مالی امداد اس امر سے مشروط ہو گی کہ وہاں جمہوری معیارات کا خیال رکھا جائے۔
جرمن وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا، ”وہ تمام حقوق اور جمہوری معیارات جو اب اس ملک میں مسلمہ حقیقت ہیں، اگر طالبان نے ان کی نفی کی، تو پھر افغانستان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد یقینی طور پر بند ہو جائے گی۔‘‘
ہائیکو ماس کا ان کے اس بیان میں اشارہ سخت گیر حد تک مذہب پسند طالبان کی اس خواہش کی طرف تھا کہ وہ مستقبل میں کابل میں ملکی حکومت کا حصہ بننا چاہیں گے۔
Courtesy: DW