وڈھ میں مسلح جھڑپیں جاری ہیں،کوٹ مینگل پربھی حملہ کیاگیاہے،دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کاآزادانہ استعمال کیاجارہاہے ،عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک17افرادزخمی ہوئے ہیں ،کئی جگہوں پرشاہراہ بندکردی گئی ہے،علاقے میں جنگ کاسماں ہے کشیدگی برقرارہے۔
بی بی سی کے مطابق وڈھ میں تازہ جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے باعث اب تک 17 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق جمعہ کے روز فائرنگ کا سلسلہ صبح نو بجے شروع ہوا جس میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ فائرنگ کی وجہ سے وڈھ شہر اور بعض دیگر علاقوں میں آمد و رفت کے مرکزی راستے ایک مرتبہ پھر بند کر دی گئی ہے۔
وڈھ میں فریقین کے درمیان لڑائی کو رکوانے کے لیے چیف آف ساراوان اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم خان رئیسانی کی سربراہی میں کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق وڈھ میں صورتحال سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے ہی کشیدہ ہیں لیکن اس کشیدگی میں حالیہ اضافہ جون کے دوسرے ہفتے میں اس وقت ہوا جب مینگل قبیلے کے دو حریف گروہ ایک دوسرے پر اپنے کارکنوں کی مبینہ جبری گمشدگی، قتل، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین الزامات عائد کرنے کے تناظر میں بڑی تعداد میں ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہونا شروع ہو گئے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وڈھ میں کشیدہ صورتحال کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں ’سرکاری سرپرستی میں چلنے والے مسلح جتھے‘ حالات کو خراب کر رہے ہیں جبکہ شفیق مینگل ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق خضدار میں انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایاہے کہ آج صبح ایک مرتبہ پھر فائرنگ کے تبادلے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اہلکارکا کہنا تھا کہ آج ہونے والی فائرنگ سے مینگل کوٹ بھی متاثر ہوا ہے جہاں مینگل قبائل کے سربراہ سردار اسداللہ مینگل اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا گھر موجود ہے ۔
انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ آج ہونے والی فائرنگ سے کوٹ مینگل میں تین افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے ۔اہلکارکے مطابق فائرنگ سے وڈھ شہر میں اب تک متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جس میں انٹرکالج وڈھ کی عمارت بھی شامل ہے۔
انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ فائرنگ میں چھوٹی بڑی مشین گنوں کے علاوہ آرپی جی اورمارٹر کے گولے بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے جنگ بندی کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں اور کوئٹہ کراچی شاہراہ کے دونوں اطراف میں فریقین کے جو مورچے تھے ان کو خالی کروایا گیا تھا۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے باعث اس وقت کوئٹہ کراچی شاہراہ بند ہے اور جب بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے تو اسے بند کر دیا جاتا ہے کیونکہ گاڑیوں کے فائرنگ کے زد میں آنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ شہر کے بعض علاقوں سے چھوٹے پیمانے پرلوگ نقل مکانی کررہے ہیں ۔جبکہ وڈھ میں مقامی صحافیوں کاکہناہے کہ گزشتہ شب فائرنگ کا سلسلہ بند ہوا تھا لیکن آج صبح یہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوا۔
صحافیوں کے مطابق وہ گھروں میں محصورہوکررہ گئے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے علاقوں میں نقصانات کا جائزہ نہیں لے سکتے تاہم تین روز سے وڈھ شہر کے مختلف علاقے فائرنگ کی زد میں ہیں۔مقامی صحافیوں کے مطابق فائرنگ کی وجہ سے معمولات زندگی سمیت شہر کی تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔
بی بی سی کے مطابق وڈھ سے بھی بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ ہوئے، جن کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر قوم پرست تنظیموں سے رہاہے۔
جبری گمشدگی، قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کے زیادہ تر واقعات کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی اور سردار اختر مینگل، شفیق مینگل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جس کی انھوں نے ہمیشہ تردید کی ہے۔بدامنی کے واقعات کے خلاف بی این پی کی کال پر وڈھ میں کوئٹہ، کراچی شاہراہ ماضی میں بھی متعدد بار بند رہی تاہم وڈھ میں حالیہ کشیدگی کی وجہ وڈھ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص عبدالوحید کا اغوا بنی۔ عبدالوحید کے اغوا کا الزام بھی شفیق مینگل پر عائد کیا گیا تھا۔
عید سے قبل کوئٹہ، کراچی شاہراہ کی بندش، علما اور قبائلی عمائدین کی کوششوں کی وجہ سے نہ صرف عبدالوحید بازیاب ہو گئے بلکہ شفیق مینگل کے ایک حامی خدا بخش محمود زئی کی بازیابی بھی عمل میں آئی جن کے مبینہ اغوا کی ذمہ داری سردار اختر مینگل اوران کے حامیوں پر عائد کی گئی تھی۔
مغویوں کی بازیابی کے بعد صورتحال کو معمول پر آنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور مسلح افراد کے اپنے مورچوں کو نہ چھوڑنے کی وجہ سے وڈھ میں کشیدہ صورتحال برقرار ہے۔
وڈھ ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے۔ جو کوئٹہ سے جنوب مغرب میں اندازاً چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع ہے۔
دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل وڈھ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے لیکن اس علاقے میں غالب اکثریت مینگل قبیلے کی ہے۔
یہ بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ اور ممتاز قوم پرست رہنما سردارعطااللہ مینگل مرحوم کا آبائی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ بلوچستان میں قوم پرستی کی سیاست کا اہم مرکز رہا ہے اور یہاں سے مینگل قبیلے سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔
کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع ہونے کے علاوہ زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے وڈھ کے علاقے کو سٹریٹیجک اہمیت حاصل ہے۔
اگرچہ وڈھ سے زیادہ تر قوم پرست رہنما منتخب ہوتے رہے ہیں لیکن سابق صدر ضیا الحق کے دور میں ہونے والے عام انتخابات میں سابق نگراں وزیر اعلیٰ میر نصیر مینگل بھی رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے بعد سے وڈھ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل اس نشست سے سردار اختر مینگل اور ان کی پارٹی کے امیدواروں کا انتخابات میں مقابلہ کرتے رہے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق چند روز قبل جب بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس کی ذمہ داری مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے گروہ پر عائد کی تھی۔
انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ’سابق آمر مشرف کے دور میں بلوچستان میں قوم پرستی کی جو تحریکیں تھیں ان کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ڈیتھ سکواڈ اور مسلح جتھے بنائے گئے۔ ریاستی اداروں نے ان جتھوں کو ان تحریکوں سے بلاواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھنے والے افراد کو اغوا اور قتل کرنے کا لائسنس دیا۔‘
بی این پی کے سربراہ نے کہا تھا کہ سنہ 2012 تک ان مسلح جتھوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں یہ کام بھرپور انداز سے لیا گیا تاہم اس کے بعد بھی وقت فوقتاً ان سے کام لیا جاتا رہا۔
سردار اختر مینگل نے دعویٰ کیا تھا کہ وڈھ میں دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ مخالف گروہ نے ان کی اراضی پر بھی قبضہ کیا۔
انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ’سرکار کے لوگ جب یہاں ہم سے بات چیت کے لیے آتے ہیں تو یہ مانتے ہیں کہ وڈھ میں جس اراضی پر قبضہ کیا گیا وہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق ہماری ہے لیکن اراضی کا قبضہ ختم کرانے کی بجائے ہمیں کہتے ہیں کہ آپ لوگ پیچھے ہو جائیں۔‘
اس سوال پر کہ شفیق الرحمان مینگل آپ پر سرداری نظام کے باعث لوگوں پر ظلم، انھیں اغوا کرنے اور نجی جیل میں ڈالنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، سرداراختر مینگل نے کہا تھا کہ کیا یہ سرداری نظام صرف وڈھ میں ہے؟
’سردار تو بلوچستان میں ہر جگہ ہیں۔ خود جنرل مشرف نے یہ اعلانیہ کہا تھا کہ بلوچستان کے 73 سرداروں میں تین کے سوا باقی ان کے ساتھ ہیں۔‘
انھوں نے سوال کیا کہ ضلع خضدار کے علاقے توتک سے جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تو کیا وہاں سرداری نظام کی کوئی جیل تھی یا سرکاری سرپرستی میں قائم مسلح جتھے تھے؟
انھوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم پرستوں کی حکومت نے بلوچستان سے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن اس کو ختم کرنے کی بجائے ریاست اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔
وڈھ کی حالیہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ یہاں بدامنی کے واقعات کے ساتھ ساتھ عام لوگ اور تاجر اغوا ہوتے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں قبائلی نظام ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود شفیق الرحمان بھی اپنے قبیلے کے بعض لوگوں کا نام استعمال کر رہے ہیں لیکن جب مسلح جتھے کے مظالم سے لوگ تنگ آ گئے تو ان میں اس کے خلاف موجود لاوا پھٹ گیا اور وہ ان مظالم کے خلاف کھڑے ہو گئے۔‘جبکہ شفیق مینگل کی جانب سے سرداراخترمینگل اوران کے حامیوں پرجھالوان عوامی پینل کے کارکنان کی اغواسمیت کئی الزامات عائدکئے گئے ہیں۔
جبکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹرپرہیش ٹیگ ڈیتھ اسکواڈزختم کئے جائیں سمیت مختلف ٹوئٹرہینڈلزسے غیرریاستی عناصرکے خلاف جزبات اوراحساسات کااظہارکیاجارہاہے جبکہ کئی خبررساں اداروں کی جانب سے توتک میں اجتماعی قبر،قوم پرست کارکنان کے اغوا،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی حوالے سے نیوزفیچرز،مقالے بھی شائع کئے گئے ہیں اورانہیں نوجوان قارئین کی طرف سے سراہاجارہاہے۔
سَکّیاں برات گوں مرکباں اوشت انت/پیش ءَ اے بتل ءِ دومی بند ءَ گُشتگ اِش کہ “وشیاں حاتونیں جَن نوش انَت” بلئے اے بتل ءَ نوں دگہ دروشمے گِپتگ،نوں حاتونیں زال ءُسنگینیں جَنِک ہم سَکّیاں گوں مرکباں ہمواگ بنت ءُاُوشت اَنت۔
اس رپورٹ کے کچھ حصے بی بی سی اردو سے لئے گئے ہیں۔