بصیر نوید
چین کی مکمل عملداری کو نافذ کئے ایک سال پورا ہوچکا ہے، 30 جون 2020 کو چین نے ہانگ کانگ میں نیشنل سیکیوریٹی بل (این ایس ایل) کو نافذ کیا جس کے بعد ازیں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اب وہ گہما گہمی نہیں رہی، لڑکے لڑکیوں کے گروہ اور اجتماع غائب ہوگئے جو صرف” ایک فرد اور ایک ووٹ” کا خواب سجائے سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوتے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹولیاں بنا کر کسی بھی اسٹیشن کے باہر جمع ہوکر چل پڑتے جبکہ ان سے پہلے ہی ایسی ہی ٹولیاں آگے آگے چل رہی ہوتی تھیں علی الصبح سے چلنے والی ٹولیاں رینگتے رینگتے رات گئے ختم ہوتی تاکہ دوسرے دن پھر سے اکٹھا ہوا جا سکے۔ نوجوان سڑکوں پر ہی چھوٹے چھوٹے پوسٹر بناتے، کوئی چندہ جمع کرکے پانی کی بوتلیں خرید کر مظاہرین کی طرف پھینکتے، کوئی گروپ رنگین رنگین ربن اور کاغذ کی بنائی گئی ٹوپیاں تقسیم کرتے، جب بھی نعرے لگتے ایک ساتھ ہی لگتے، ان سب کا بنعرہ “ایک فرد ایک ووٹ” تھا جسے چین کی حاکمیت نے 1997 میں برطانیہ سے اقتدار لینے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ ہانگ کانگ کے باشندوں کو مکمل جمہوریت دی جائے گی، اسکے بعد 2007 میں بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ 2017 میں ہر فرد کو ووٹ کا حق دیا جائے گا جو پھرکبھی پورا نہیں ہوا البتہ اس کے برعکس 2020 میں نیشنل سیکیوریٹی بل متعارف کردیا گیا۔ جس کے سبب بہت سارے خاص کر اظہار رائے کی آزادی اور اجتماع کی آزادی کے حقوق پر ڈاکہ پڑگیا۔
ہانگ کانگ میں مسلسل ہونے والے مظاہروں میں حاکمین کیلئے تکلیف دہ امر یہ تھا کہ ان میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہو رہا تھا مگر پھر تشدد کا عنسر ڈالنے کا عمل شروع ہوا لیکن یہ ذیادہ نہیں چل سکا کیونکہ لوگ سمجھ گئے کہ کیا ہونے جا رہا ہے جس سے تحریک نقصان میں جاسکتی ہے، تشدد کے دوران اسٹیشن پر نصب مشینیں توڑی گئیں شیشے اور قیمتی سامان برباد کردیا گیا جس کیلئے مقامی حکومت نے پرائیویٹ لوگوں کو سیکوریٹی کی ذمہ داری دی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ مظاہرین کی آپس کی لڑائی ہے۔
ایک سال قبل نافذ ہونے والے نیشنل سیکیوریٹی بل نے ان کے شہری و سیاسی حقوق چھین لئے جس سے گھبرا کر بقول انگریزی روزنامے ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے اب پروفیسرز اور صحافی بھی کالمز لکھنے کیلئے میسر نہیں ہورہے یا اپنی رائے دینے کیلئے بھی تیار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ان کاوشوں کا سلسلہ ہے جو چین ہانگ کانگ کے جمہوری اداروں اور معاشرے کی بنیادوں کی از سر نو تشکیل کیلئے ایک عرصے سے مہم چلا رہا ہے۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ چین ہانگ کانگ میں کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر حاکمیت چاہتا ہے۔ ہانگ کانگ جو کبھی ایشیا کا ایک مثالی آزاد شہر کہلاتا تھا اب اس میں پر امن احتجاج پر پابندی ہے۔ یہاں کا مقبول عام ٹیبلائٹ روزنامہ ایپل کے پبلشرز اور ایگزیکیٹیوز کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جو آزادی کے حق میں تھے۔ لفظ” آزادی” مشکوک بن چکا ہے کیونکہ مظاہروں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا یہ لفظ آزادی ہی تھا جس پر اب پابندی ہے۔
ہانگ کانگ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایک سو سے زائد افراد کو نیشنل سیکیوریٹی بل کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے 47 افراد جمہوریت نواز کارکن ہیں جنہوں نے لیجسلیٹو کونسل کے (جسے لیجکو کہا جاتا ہے) الیکشن سے قبل اپنے ہی پرائمری ووٹنگ کرادی تھی تاکہ سرکاری ایلکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو سکیں۔ ہانگ کانگ کے اخبارات میں چھپنے والی رپورٹنگ میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ سیکیوریٹی بل کے بعد سے دس ہزار افراد گرفتار کئے گئے تھے جن میں سے بیشتر رہا کردیئے گئے۔ دوسری جانب جمہوریت نواز پیپلز پاور کے وائس چئرمین ٹام ٹاک چی کو 14 الزامات کے تحت گرفتار کرکے اسے ستمبر 2020 سے بغیر مقدمہ چلائے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ممتاز وکلاء مارٹن لی اور ماگریٹ نا سمیت ایک نوجوان کارکن جو شیا وانگ کو مذکورہ بل کی خلاف ورزی پر دس دس ماہ کی سزائیں دی گئیں۔ نوجوان وانگ پر دیگر الزامات کے ساتھ موم بتیاں جلانے اور پارک میں بیٹھنے کے الزامات تھے۔2019 کے مظاہروں چھوٹے تاجرروں نے یلو اکنامک سرکل کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی، یہان پیلے رنگ کو جمہوری تحریک کی علامت سمجھا جاتا ہے، اس سرکل نامی تحریک میں صارفین اور تاجروں کا ایک بڑا گروپ شامل تھا جن کو شکایت ہے کہ حکومت ان کو ہراساں کررہی ہے۔ بچوں کے ملبوسات کے ایک برانڈ چکیڈک کو لیڈی لبرٹی کا دو میٹر لمبا مجسمہ نصب کرنے پر شاپنگ مال نے نوٹس جاری کیا یہ مجسمہ کچھ آرتستس نے ہانگ کانگ کی آزادی کی علامت کے طور پر نصب کیا تھا بعد ازیں اس دکان کی لیز ختم کرکے اسے بند کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ہیومن ائٹس واچ نے اسکا نوٹس لیا تھا لیکن کسی اقدام سے قبل ہی دکان بند ہوگئی۔
نیز لیجسلیٹیو کونسل میں چین کے قومی ترانے کو اپنانے اور اسکا احترام کرنے کا بل زیر غور ہے جسکا مقصد چین سے اپنی وفاداری کا اظہار ہے۔ یعنی ہر فرد پر لازم ہوگا کہ وہ چین کا قومی ترانہ گائے اور اسکا اسی طرح احترام کرے جیسا کہ چین میں کیا جاتا ہے۔ نیز عدالتی نظام میں بعض تبدیلیوں کا بھی امکان ہے جبکہ ہانگ کانگ کے عدالتی نطام کو ایشیا کے صف اول میں شمار کیا جاتا ہے۔گزشتہ چند ماہ میں قانون ساز اسمبلی کے سابق ممبران سمیت شہریوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ گئی خاص کر برطانیہ منتقل ہوگئی ہے۔
تاہم ابھی بھی شہریوں میں عام تاثر یہی ہے کہ چین نواز سیاسی جماعت ڈی اے بی کو ہانگ کانگ میں اکثریت حاصل ہے جو آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلیگی، نوجوان نسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چین کے نظام کو پسند نہیں کرتے وہ جمہوریت کو اسکے مروجہ معنوں نافذ کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو عدالتی نظام رائج ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی جمہوریت کے لیئے سخت نقصان دہ ہوگی۔
سیکیوریٹٰی بل کے نفاذ کے بعد اب ہانگ کانگ سونا سونا ہوگیا ہے، صرف صبح شام ٹرینیں اور بسیں لوگوں سے بھری ہوتی ہیں لیکن خاموش خاموش چہروں کے ساتھ۔ سیاسی و سماجی سرگرمیاں بند ہیں جو فی الحال کرونا کی آڑ میں بند ہیں اور یہی بہانہ لوگوں کو کسی احتجاج میں حصہ لینے سے دور رکھتی ہے۔ ہانگ کانگ والے سمجھتے ہیں کہ کرونا آیا ہی ان کی جمہوری تحریک کو ختم کرنے کیلئے ہے۔
مصنف انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کونسل – ہانگ کانگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں. ان سے درج ذیل ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
baseernaveed@gmail.com
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.