نورمحمد نور
جو کتابوں کے عُشاق تھے دن بہ دن
حسبِ دستور وه لاپتہ ہو گئے
مجھے ان لوگوں پہ ترس آتا ہے جو سورج کو زندانوں میں قید کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو اس دستور سے نا واقف ہو لیکن یہ پچھلے ستر سالوں سے ہوتا آ رہا ہے یہ سلسلہ تب سے شروع ہوا جب بلوچ قوم کو اپنی غلامی کا احساس ہوا ہے
کل ہی کی بات ہے جب بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل سے دو بلوچ طلبا لاپتہ ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی کیمرے کی کُھلی آنکھیں ہمارے لیے بند ہوتے نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ کیمرے صرف ہمیں دیکھنے کیلئے ہوتے ہیں ہمارے ساتھ کیا مظالم ہو رہا ہیں یہ دکھانے کیلئے نہیں۔
یہ وہی کیمرے ہیں جو کچھ وقت پہلے تک وہاں تک بھی دیکھ سکتی تھیں کہ جہاں پر ان کا دیکھنا بلکہ ہونا بھی جائز تصور نہیں کیا جا سکتا تھا، مگر اب جب یہ طالبعلموں کی جبری اغوا کا واقعہ رونما ہوا ہے تو یہ بلوچ دشمن کیمرے پھر یہ بہانہ بنا رہے ہیں کہ وہ تو اندھے ہوچکے ہیں اور اُن کی بینائی تو کب کہ چین لی گئی ہے.
علم کی جستجو میں پسماندہ علاقوں سے آئے ہوئے وہ سب بلوچ لڑکے آج پھر اپنے تعلیمی ادارے، اپنی نام نہاد سرکار، خون کی پیاسی انتظامیہ اور اندھے کیمروں کی زد میں کہیں روپوش ہو گئے ہیں اور ادارے کاکہنا ہے کہ ہمارے اندھے کیمرے اس روپوشی کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں۔
ویسے بلوچ کے حق میں اکثر ریاست کے ساتھ ساتھ وہ بے جان اور بے حس چیزیں بھی خاموشی اختیار کر لیتی ہیں کہ جن کے اندر احساس نام کی چیز سرے سے ہی ناپید ہے، یہ وہ ریاست ہے کہ جہاں بلوچ کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ بلند ہو تو اُسے بھی خاموش کر دیا جائے گا لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس ریاست میں صرف ریاست ہی بلوچ کی دشمن نہیں بلکہ اُس میں موجود وہ یورپی مشینیں بھی بلوچ کی دشمن ہیں کہ جن کو آج تک کسی بھی بلوچ نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے، مگر کیا کیا جا سکتا ہے جب ریاست کے لوگ، ادارے، قانون، سرکار سب بینائی کھو چکے ہیں تو تعجب نہیں کہ کیمروں کے آنکھوں کی روشنی بھی چلی جائے۔
مِرے قبیلے کے ہر قلم میں ہے امن و الفت
تمہارے لشکر کی شوٹ گن میں اذیتیں ہیں