ناصر زہری بلوچ
موجودہ دور میں جہاں ایک طرف ترقی یافتہ دنیا مریخ پہ منتقل ہونے کی باتیں کر رہی ہے، آئے روز نت نئے ایجادات موجودہ منظرنامے کو برق رفتاری کے ساتھ بدلتے جارہے ہیں۔ تو دوسری جانب “3،47،190” کلو میٹر پر مشتمل بلوچستان جو اپنے سینے میں چھپے کئی راز سمیت معدنیات چھپانے کے باوجود بزگی اور لاچاری کا منظر پیش کر رہی ہے۔ وہ بلوچستان جس کو دنیا میں لاپتہ بلوچوں سمیت دلکش صحراوں، دولت مند پہاڑوں، انتہائی اہمیت کے حامل ساحلوں، منفرد محل وقع اور سرحدوں اور وہ بلوچستان جو “لینڈ آف منرلز” کہلاتا ہے ایک ایسا خطہ ہے جس کی تاریخ کم و بیش نو ہزار سال پرانی ہے۔ جہاں مہر گڑھ جیسی تہذیب وجود رکھتی تھی۔ وہ “مہرگڑھ” جو بلوچستان کے علاقے وادی بولان سے تھوڑا آگے سبی ڈھادر میں واقع ہے۔ یہ زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے اور تاریخی حساب سے دیکھا جائے تو یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں “گندم اور جو” کی پہلی بار زراعت کی گئی تھی۔
برصغیر کے تقسیم کے بعد بلوچستان کا جبراً ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا۔ اس الحاق کو شروع دن سے بلوچوں نے دل سے قبول نہیں کیا اور وقتاً فوقتاً اس کی مخالفت کرتے رہے، وہ مخالفت پھر “بغاوت” میں تبدیل ہوگئ، کیونکہ بلوچ جانتا تھا کہ یہ صرف اور صرف جبراً بلوچستان پر قابض ہو کر وسائل کو لوٹنے کا طریقہ ہے۔ جو ڈر تھا کچھ سال بعد ویسا ہی ہوا جس کا واحد ثبوت یا مثال ریاست پاکستان کے قیام کے کچھ سال بعد “1952” میں بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی کے زرخیز زمینوں سے “گیس” کا دریافت تھا وہی گیس جو 1952 سے آج 2022 تک ریاست کے کونے کونے تک پہنچ گئی پر بد قسمتی سے بلوچستان کے ماسوائے کوئٹہ کینٹ اور چند مختلف مقامات کے باقی کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔ بقول سردار اختر جان مینگل صاحب کے” گیس کے پائپ ہمارے گھروں کے سامنے سے بچائے ہوئے ہیں پر ہمیں اس کو سونگھنے کی بھی اجازت نہیں۔”
بلوچستان میں گیس دریافت ہونے کے کچھ سال بعد بد قسمتی سے چاغی کے علاقے :سیندک” سے سونے تانبے سمیت 8 اہم معدنیات کا انکشاف ہوا۔ اسی قدرتی معدنیات کی وجہ سے بلوچستان سمیت افغانستان سنٹرل ایشیا اس وقت عالمی سیاست کی وہ شطرنج بنتا جا رہا ہے جہاں امریکہ برطانیہ جاپان روس چین، سمیت ہندوستان مہروں کو دن رات ایک کئے ہوئے ہیں کہ آنے والے صدیوں میں جو معاشی اور ترقی کی قلت ہوگی اس جنگ کے لئے ابھی سے تیاری ہو جائے۔ امریکہ برطانیہ سمیت ہندوستان کا منصوبہ بندی آئندہ افغانستان، بلوچستان اور سنٹرل ایشیا کی پانچوں ریاستوں کو آئندہ پچاس سالہ معیشت کا محور بنانے کے ساتھ ساتھ گوادر پورٹ کو کراچی پورٹ کے برابر لانے کا ہے۔ کیونکہ امریکہ روس چین ہندوستان کب کا جان چکے ہیں بلوچستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی دوسری معدنیات کے علاوہ ،تیل گیس، یورنیم، اور تھوریم، کے لا محدود ذخائر موجود ہے اور اسی معدنیات کی دریافت بھی کی جاچکی ہے۔
ان کو معلوم ہے کہ اس وقت صرف افغانستان کے شمالی حصوں میں گیس کی مجموعی مقدار 5•36 ٹریلین کیو بک فٹ اور تیل 6•3 بلین بیرل موجود ہے اس کے علاوہ افغانستان کے کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں زیر زمین ن چھپے ہوئے نادر زمینی خزانوں کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 26 ہزار ڈالر فی ٹن ہے۔اسی وجہ سے آنے والے صدیوں میں آبادی کی بڑھتی ہوئی تناسب اور معاشی بحران کو سمجھتے ہوئے امریکہ اور چین ابھی سے بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔
ریاست پاکستان فلحال اپنی معیشت کو سیندک سمیت بلوچستان کے معدنی ذخائر کی لوٹ مار کرکے مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ سیندک بلوچستان کے علاقے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ جو میدانی، ریگستانی، پہاڑی سمیت 2 ملکوں کے باڈرز پر مشتمل 700 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ضلع ہے۔ یعنی صرف بلو چستان کا علاقہ چاغی صوبہ خیبر پختونخواہ کے برابر ہے چاغی کی کل آبادی تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتے ہیں چاغی میں سب سے پہلے 1962، میں جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے سینئر ممبر “ڈاکٹر شاہد نور” نے یہ انکشاف کیا کہ یہاں سونے تانبے سمیت کئی ذخائر موجود ہے شاہد نور کے اس انکشاف کے کچھ سال بعد پھر 1978 میں “ڈاکٹر ثمر مبارک مند” نے سیندک کے حوالے سے مکمل تحقیقات اور چانچ پڑتال کے بعد دنیا کو بتایا کہ سیندک میں معدنیات ایک ٹریلین ٹن سے زیادہ ہے جو نصف صدی سے زیادہ عرصے تک سالانہ 20 ہزار ٹن تانبا اور 25 ہزار ٹن اونس سونا پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
“ڈاکٹر ثمر مبارک مند” کے انکشافات کے بعد حکومت پاکستان نے ٹریلین ڈالرز کے سیمدک کو مختلف کمپنیز کو کوڑے کے دام میں لیز پر دیا۔1990 میں، ایک چینی کمپنی چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشنز (ایم سی سی) اور RDL کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 1995 میں 1500 میٹرک ٹن تانبا اور سونا نکالا گیا۔ بعد میں 1996 سے 2001 تک ہنر مند افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے اور دنیا میں تانبے کی قیمت غربت کی وجہ سے سیندک منصوبہ بھی متاثر ہوا نتیجتاً مذکورہ مد میں بلوچستان کو تنخواہوں اور دیکھ بھال پر 300 ملین روپے خرچ کرنے پڑے۔2001 میں، حکومت پاکستان نے ایم سی سی کے ساتھ لیز کا معاہدہ کیا، جسے 10 فروری 2002 سے نافذ کیا جانا تھا۔ معاہدے کی شرائط و ضوابط میں یہ نکات تھے
1۔ معاہدہ دس سال کی مدت کے لیے ہو گا
۔2 : SML کو سالانہ 0.5 ملین ڈالر ملنا تھے۔
۔3: SML کے پاس منافع کا 50 فیصد اضافی نقد حصہ بھی تھا۔
4: حکومت بلوچستان کو رائلٹی کا 2 فیصد رکھا گیا تھا، جسے 2009 میں بڑھا کر 5 فیصد کر دیا گیا۔
2012 میں، معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد ، اس کی مزید 5 سال کے لیے تجدید کی گئی، پھر 2017 میں اسے مزید 5 سال کے لیے 2022 تک بڑھا دیا گیا۔
چاغی وہ علاقہ جو ایٹم بم کا تجربہ ہونے سے عالمی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ بد ترین سماجی اشاریوں کی زد میں ہے۔ یہ بلوچستان کا سب سے بڑا وسائل سے مالا مال اور سب سے کم ترقی یافتہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ جہاں خواندگی کی شرح صرف 29 فیصد جبکہ غربت کی شرح 59 فیصد ہے۔
سیندک کو لا وارثوں کی طرح 1993 میں بغیر ٹینڈر کے ایسے فروخت کیا گیا ایسے کوئی ٹھیکیدار اپنے چھوٹے سے روڈ کو بھی نہیں کرتا. سالوں تک لوٹ کھسوٹ کے بعد جب بلوچستان کے حکمران ہوش میں آگئے تو معائدہ منسوخ ہوا اسی منسوخی کی وجہ سے بجائے لینے کے سیندک کے اصل مالک حکومت بلوچستان کو 800 ارب ڈالر معائدہ کے خلاف ورزی کرنے کے اوسط پہ جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
ابھی بھی سیندک میں 3•12 ملین ٹن تانبا اور 9•20 ملین اونس سے زیادہ سونا موجود ہے جس کو حالجہ دنوں حکومت پاکستان نے لاوراث سمجھ کر %25 پہ واپس غیر ملکی کمپنی کے ساتھ معاہدے کے تحت دیا ہے۔ سیندک کے علاوہ سی پیک کے نام پر گوادر سمیت بلوچستان مختلف علاقوں سے حالیہ رپورٹ کے مطابق 11 اقسام کی معدنیات کے ساڑھے 8 ہزار ٹن سے زائد کے ذخائر موجود ہیں۔ محکمہ معدنیات کے مطابق بلوچستان کے علاقے چاغی اور مستونگ کے مختلف جگہوں سے آئرن کے 273 ملین ٹن کے ذخائر موجود ہے اس کے علاوہ پشین، قلعہ سیف اللہ، ژوب، لسبیلہ، خضدار سمیت مسلم باغ سے کرومائیٹ کے 300 ملین ٹن قدرتی ذخائر موجود ہے اسی طرح بلوچستان کے علاقے کوئٹہ، شہرگ، ہرنائی، بولان،دکی، موسی خیل، سمیت کوئلو سے ایک ہزار ملین ٹن سے زیادہ کوئلہ کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں- اتنے سارے وسائل جو کئی کھرب ڈالر کے باوجود بلوچستان کے لوگ پینے کے صاف پانی اور نان شبینہ کے محتاج ہیں اور اتنے وسائل کے باوجود بھی دنیا کے سب سے امیر خطہ سب سے غریب خطہ کہلاتا ہے اسی کو کہتے ہیں سمندر میں بھی پیاسا!
کھربوں ڈالرز کے سیندک اور ریکوڈک کے درمیان بلوچستان کے اصل وارث 2 وقت کے روٹی کمانے کلئے بھوک پیاس چاغی کے مقام پر نوکنڈی میں ایسے مرتے ہیں جیسے قحط سالی سے صحرا میں کوئی جانور مرا ہوا ہو، اتنے نا انصافی کے باوجود آواز اٹھاؤ تو بمب دھماکوں میں شہید کیا جاتا ہے یا رات کے اندھیرے میں بزدلوں کی طرح چاپہ مار کر اٹھا کے عقوبت خانوں میں بند کیا جاتا ہے جو بعد میں توتک جیسے اجتماعی قبروں کی زینت ہوتے ہیں یا پھر کسی جبل میں پہنک دیا جاتا ہے جو کچھ دن بعد لا وارثوں کے کھاتے میں شمار ہو کر شال کے بغل والے علاقے دشت کے مقام پر لا وارثوں کے قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے-
بلوچ اگر آج بھی آپنے “دھرتی” “سائل وسائل” اپنی “شناخت” کے لیے الگ الگ آواز اٹھانے کے بجائے یکجا ہو کے آواز نہیں اٹھائے گا تو یقینن وہ دن دور نہیں کہ انکی تشخص، اور شناخت ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی۔
مصنف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے سنٹر کمیٹی کا ممبر ہے
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.