مصنف: شاہ میر بلوچ
کہتے ہیں کہ جب کسی عوام اور علاقے میں اپنی من مانی کرنا اور عوام کو استحصال کرنا چاہو تو سب سے پہلے ان کو زہنی طور پر مفلوج کرکے ان میں کنفیوژن پھیلائی جائے تاکہ وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کرنے کے قابل نہ رہیں، بلاشبہ پَنجْگُور کے عوام کو ہوبہو اسی طرح کنفیوژن میں مبتلا کی گئی ہے، یہاں ہر شخص میں کنفیوژن اور مایوسی پایا جاتا ہے۔
اگر نظر دوڑائی جائے تو یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت، مال مویشی، بارڈر ٹریڈ اور سرکاری ملازمت ہے، یہاں کے مخلتف ورائٹی کی کجھور ملک بر میں مشہور ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومت کی عدم توجہی سے زراعت بھی مکمل طور پر تباہی چھوکٹ پر ہے۔
اگر آپ ماضی کی حالت زار کو جاننے کیلئے کسی بھی بزرگ سے پنجگور اور اسکے باسیوں کے متعلق جستجو کریں کہ پرانے زمانے میں پنجگور کیسا تھا اور یہاں کے لوگ کس طرح زندگی بسر کرتے تھے تو وہ پورا دن آپ کو دلچسپ معلومات فراہم کرے گا جو تاریخی حوالے سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
پنجگور کے عمر رسیدہ اشخاص ماضی کے لوگوں پر تزکرہ کرکے کہتے ہیں کہ گزشتہ زمانے میں پنجگور کے لوگ مہمان نواز، ایمان دار تھے، معاشرے میں ہمدردی، بھائی چارگی سمیت کئی خوبیاں پائی جاتی تھی اور ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد و کمک کیا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منصفانہ اور ہمدردانہ معاشرے میں کافی بگاڈ پیدا کیے گئے معاشرے کو بے ترتیب بنایا گیا جہاں ہر کوئی اپنے سے کمتر اور کمزور پر ظلم کرتا ہے، دوسروں کے زمینوں پر ناجائز قبضہ اب ایک پیشہ بن چکا ہے۔
چونکہ سیاست انسانی زندگی کا ایک اہم جز ہے جس سے اقوام کے اندر شعور بیدار ہو کر ترقی کی جانب بڑھنے کا راستہ ہموار کرنے میں انکے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے، جب معاشرے میں سیاسی نظام تباہ ہو جائے تو وہاں نا انصافی، اور بدنظمی جنم لیتی ہے۔
آج بلوچستان بر میں سیاسی جماعتوں کا جو کردار ہے وہ سب کے سامنے واضح ہے، سیاسی جماعتوں کی غلط پالیسیوں کا سزا پوری قوم بھگت رہی ہے،
اب ان نام نہاد سیاسی جماعتوں پر قوم کا اعتماد ختم ہوچکا ہے، چونکہ پنجگور میں بھی یہی جماعتیں سرگرم رہیں ہیں ہر وقت جلسے جلوس کرتیں رہتی ہیں۔ اِس لیئے پنجگور سْیاسی حوالے سےتباہی کا شکار ہے، بی ایس او اور قوم پرستی کے نعرے لگانے والے ان نامساعد حالات میں اپنے اہم کردار ادا کرنے میں کس حد تک سنجیدہ رہے ہیں؟
داد جان کی شہادت، کمسن بچہ قدیر خلیل کو گھسیٹ گھسیٹ کر شہید کرنا، دیگر نوجوانوں کا سرعام قتل، موٹر سائیکلوں کی چوری، ڈکیتی کے واردات ، ان سب کا زمہ دار کون ہے؟
اتنے واقعات کے رونما ہونے کے باوجود اب تک کوئی قاتل یا چور گرفتار نہیں ہوسکا، بدامنی، بدعنوانی اور روز بہ روز ابتر صورتحال کے اندر پنجگور کے باسی نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں لیکن ان نامساعد حالات اور واقعات کی روک تام کیلئے اب تک کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے۔ اگر کوئی خاندان انصاف مانگنے کیلئے احتجاج کرتا ہے تو سْیاسی جماعتیں اس موقع کو غنمیت سمجھ کر انہیں اپنی مفادات کیلئے استعمال کرنے کا کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔
پَنجْگُور کے ہسپتالوں میں نہ ادویات میسر ہیں اور نہ ہی ڈاکٹرز موجود ہیں اسکے علاوہ باقی تمام ادارے بھی تباہی کے شکار ہیں لیکن کوئی بات کرنے والا نہیں۔
بی این پی (عوامی) چونکہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ اقتدار میں ہے اور اس وقت بھی وہ بلوچستان کی حکومت میں شامل ہے جس نے ریکوڈک کا سودہ لگا کر انہیں غیر ملکی کمپنی کے حوالے کرنے میں دن رات کوششیں جاری رکھی، تاریخ کے اوراق میں ان کے سیاہ کرناموں کو برے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ وزارت حاصل کرنے کی خاطر بلوچستان کے ساحل وسائل کا سودہ لگا کر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دینا جیسے کردار تاریخ میں درج ہیں۔
پَنجْگُور کے لوگوں کی کاروبار کو وفاق کی جانب سے متاثر کیا گیا ہے، پارٹیوں کے نمائندگان نے اسٹیکر کے نام پر اربوں روپے کمائے لیکن انکا نام عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ کیا پارٹی قیادت ان نمائندگان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی؟
ہوشیار باشی اور بڑی چالاکی کے ساتھ ایران بارڈر کے کاروبار کو بحال کرنے کیلئے لوگوں کو آپس میں لڑانے کی جو سازش کی گئی ان کا زمہ دار کون ہوگا؟
لڑاؤ حکمرانی کرو اور فائدہ اٹھاؤ کی پالیسی پر کاربند ہو کر بارڈر کو دوبارہ اس لئے بحال کیا گیا کہ انکے فوائد صرف با اثر شخصیات اٹھائیں، ان میں عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے، کیونکہ ایک عام گاڈی والے کا دوسرا باری کا انتظار کرتے کرتے ہفتوں اور مہینوں تک گزار دیتا ہے، اسی امید پر وہ نہ دوسرے کاروبار کرسکتا ہے بلکہ ان کے باقی ماندہ پیسے بھی خرچ کیئے ہوئے ہوتے ہیں ان کی مالی حالت کبھی بہتر نہیں ہوسکتی، اور ان قوتوں کا بھی پالیسی یہی ہے کہ لوگ پسماندہ اور زہنی مفلوج ہو کر صرف دو وقت کی روٹی کی تلاش اور تگ ودو میں وقت گزاریں اور بدحال کیفیت میں زندگی بسر کریں۔
یہاں پارٹی قیادت سْیاست میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے ہر وقت امیر اور سرمایہ داروں کو سْیاسی پلیٹ فارم پر موقع دیتے ہیں تاکہ انہی زہنیت کے مطابق پورے نظام انکے کنٹرول میں آئے، غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو سْیاسی پلیٹ فارم میں نہ موقع دیا جا رہا ہے بلکہ انکو مایوسی کی جانب دھیکلا جا رہا ہے تاکہ وہ سْیاست کے متعلق سوچ و فکر تک نہ کریں جو کہ آنے والے دنوں میں قوم کیلئے خطرناک اور مشکل ترین حالت پیدا کرنے کیلئے راہیں ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
یہاں قوم پرستی کا کارڈ استعمال کرکے قوم کی استحصال کی جارہی ہے، قوم پرستی کے نام پر جاگیردار، سرمایہ دار فائدہ اٹھا رہے ہیں، نام نہاد پارٹی اور سرکاری مشینری کے زریعے عام عوام اور کمزور لوگوں کی زمینوں پر قابض ہو رہے ہیں، پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر انکی اپنی اجارہ داری قائم ہے کون ہے جو ان لوگوں سے جواب طلبی کرے۔
وہ نوجْوان تعلیم یافتہ طبقہ جن سے امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ تعلیم اور شعور سے معاشرے کی ترقی اور سْیاست میں اہم کردار ادا کریں بد قسمتی سے یہ طبقہ بھی مایوسی کا شکار ہے، اب یہ نہ صرف خود کچھ کرنے کے قابل ہیں بلکہ اپنی نااہلی کو چھپانے کی خاطر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر دوسروں کو بھی مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انکو یہ خوف ہے کہ جو کام یہ خود نہ کرسکے دوسرے بھی یہ کام نہ کریں۔ بدقسمتی سے اگر یہ تعلیم یافتہ طبقہ مایوس نہ ہوتے تو شاید حالات کچھ الگ ہوتے، افسوس تو اس بات کی کہ تمام حقائق سے واقف ہونے کے باوجود یہ طبقہ بھی ان نام نہاد سْیاسی رہنماؤں کو سپورٹ کر رہے ہیں جو قوم کی پسماندگی کے ذمہدار ہیں، گراؤنڈ اور سوشل میڈیا میں باقاعدہ طور پر انکو اخلاقی سپورٹ دیا جا رہا ہے، انکے سوشل میڈیا پیجز اور اکاؤنٹس کو بھی چلا رہے ہیں، لیکن یہ طبقہ خود سامنے آنے اور سرگرم رہنے کے قابل نہیں رہے اور نہ ہی پارٹی سْیاست میں اپنے لئے جگہ بنا سکے۔
اگر پنجگور کے نوجْوان تعلیم یافتہ طبقے کی سْیاسی شعور بیدار ہوکر انہیں اس بات کا ادراک کرواتا ہے کہ وہ سْیاست میں سرگرم رہ کر پارٹی میں سْیاسی پوزیشن حاصل کرکے علاقے کی ترقی میں اپنا کردار کریں تو آج پَنجْگُور کے حالات شاید کافی حد بہتر ہوتے۔
صحافت ایک مہذب پیشہ ہے بشرطیکہ ایک صحافی اصولوں اور حقائق سے روگردانی نہ کرے،ایک صحافی علاقے، عوام اور ملک سمیت ان تمام طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو وہاں زندگی گزار رہے ہیں، عوام کے اندر رہ کر حقائق کو سامنے لانا انکی زمہ داری ہے، اگر علاقے میں کسی جانور پر ظلم ڈھائی جا رہی ہے تو انکی زمہ داری اور فرض بنتی ہے کہ وہ حقائق کو سامنے لائیں تاکہ غلط کو غلط ثابت کرکے آئندہ کوئی غلطی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے علاقے میں ایسا کوئی صحافی موجود نہیں جو نیوٹرل ہوکر حقائق کو سامنے لائیں، یہاں صحافت کے پیشے کی بے حرمتی ہو رہی ہے، حقائق کو سامنے لانا اپنی جگہ بلکہ یہاں ہر ایک صحافی کسی نہ کسی طرح ایک پارٹی کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ علاقے اور عوام کے باقی مسائل کو چھوڑ کر وہ سیاسی پارٹیوں کے پروگراموں کو رپورٹ کرتے ہیں، غلط کو سچ ثابت کرنے، نااہل لوگوں کو سیاسی، سماجی اور قبائلی شخصیات ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، اس وجہ سے سادہ لوح عوام حقائق سے واقف نہیں ہیں کہ کون ہیں حقیقی اور قومی لیڈران اور کون ہیں استحصالی قوتوں کے ترجمان۔
ان تمام نامساعد حالات، پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجْوان تعلیم یافتہ طبقہ، دانشور، کاروباری شخصیات اور صحافیوں کو مل کر علاقے اور عوام کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ قبضہ مافیا، منشیات فروشوں، قتل و غارت گری سمیت دیگر بدعنوانیوں کے خلاف منظم اور متحدہ قوت بن کر جدوجہد کو جاری رکھ سکیں اور عوام دشمن کرداروں کو بے نقاب کرکے انہیں مزید مواقع فراہم نہ کریں۔
Shahmeer Baloch is Central organizing committee member of National Democratic party
- CAP to hold a side event on Balochistan at the United Nations - March 14, 2023
- ولی کاکڑ! تمہیں ضرور یاد ہوگا، گورنر تعینات ہونے پر ولی کاکڑ کو بلوچ رہنماء جاوید مینگل کا پیغام - March 6, 2023
- زمینداروں نے بجلی کی بندش کیخلاف بلوچستان میں شاہراہیں بند کردیں، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا مطالبہ - March 2, 2023