الطاف حسین بلوچ
اگر ہم دنیا میں قتل و غارت کے ریشو کے حساب سے ایک محتاط جائزہ لیں تو پنجگور دنیا کے 10 سب سے زیادہ خطرناک ترین شہروں میں شمار ہونے والا ہے مگر ہماری شومیئے بخت کہ ہمارا بلوچستان تو دنیا کے نقشے میں شمار ہی نہیں ہوتا۔
صرف اگست کے مہینے میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد 21 ہے اور شاید اس سے بھی زیادہ جس میں کسی کو بھی بخشا نہیں جاتا’ نہ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو اور نہ ہی سماجی کارکنوں کو اور حد تو یہ ہے کہ ان میں ایک 4سال کا معسوم بچہ بھی شامل ہے جس کے قاتلوں کی گرفتاری اور انصاف کی حصول کے لئے اس کے خاندان نے کئ دنوں تک احتجاج بھی کیا لیکن کچھ بھی نہیں ہو سکا ہمارے معتبر لیڈران کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
ستمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ان قتل کے وارداتوں میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں پانچ افراد قتل ہوئے ہیں-
اگر یہی واقعات دنیا کے کسی مغربی ملک کے کسی شہر میں ہوتے تو آج پاکستانی میڈیا اس پر چیخ چیخ کر آواز اٹھاتا مگر شومیئے بخت کہ یہ بلوچستان ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے کہتا آرہا ہے کہ بلوچستان امن کا گہوارہ بن چکا ہے مگر دکھ تو تب ہوتا ہے جب ہمارے کچھ معتبر لیڈران اس کے ہمراہ یہی نعرہ لگا تے ہیں۔
یہ ایک انوکھی بات نہیں ہمیشہ سے کہتے اور سنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ سوتھیلوں والا سلوک کیا جاتاہے مگر یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
بات صرف پنجگور کی ہی نہیں بلکہ پورے بلوچستان کا یہی حال روزانہ کی بنیاد پر کئ قتل ہوتے ہیں کئ لوگ اغوا ہوتے ہیں اور کئ افراد کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے بس یہی دیکھتے آرہے ہیں کوئی بھی ایسا دن نہیں گزرا کہ بلوچستان میں کوئی احتجاج نہ ہوا اور میڈیا کو جیسے کچھ خبر ہی نہیں اور بلوچستان کو پر امن دیکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان کو نظر آتا ہے تو وہ جو انکی ترتیب دی گئی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو یا انکی تائید کرے- جیسا کہ سی پیک جسے بلوچستان کی ترقی کا وسیلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو کہ بلوچستان کے عوام کیلئے ایک بھیانک خواب سے کم نہیں اور جو صحافی ان سب کیخلاف آواز اٹھاتا ہے یا حقائق کو سامنے لاتا ہے تو اسے معطل کر دیا جاتا ہے یا ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جاتا ہے اور پھر بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے۔
لیکن دوسری جانب اسی بلوچستان کے انہی مظلوم عوام کی قتل و غارت پر میڈیا سمیت تمام تر انتظامی ادارے خاموش ہیں جیسے کہ انکی زندگیاں ملکی حاکموں کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی-
کبھی امن کا گہوارہ کہلانے والا پنجگور آج اسکے باسیوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے طاقتور اداروں اور گروہوں کے ہاتھوں مفلوج ہے- ایسی صورتحال میں بحیثیت ایک طالب علم اور بلوچستان کا رہائشی اپنے ان سیاسی تنظیموں اور آوازوں سے یہی التجا ہی کر سکتا ہوں کہ وہ ہم شہریوں کی تحفظ کے لئے موثر پالیسی ترتیب دیں اور پنجگور کی عوام کو اس قتل و غارت کی روکھتام کے لئے متحرک کریں-
الطاف حسین بلوچ کا تعلق نال خضدار سے ہے اور وہ اوتھل میرین یونیورسٹی میں میرین سائنس ڈیپارٹمنٹ کے فائنل ایئر کے سٹوڈنٹ ہیں-